ہر کام

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

ہر کام میں ڈنڈی مارنا گویا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ قائد اعظم کے مشہور زمانہ فرمان ” کام کام اور کام ” کی بھی ہم نے خوب مٹی پلید کی ہے۔ ہم نے ” کام کام” چھوڑ کر ” اورکام” کرناشروع کر دیے ہیں۔ وطن عزیز ترقی معکوس کی جس سے شاہراہ پر چل نکلا ہے وہ کسی ذی فہم سے مخفی نہیں۔ ہما ری کامیابی کا عظیم مظاہرہ اس شرمناک خبر سے بخوبی ہوتا ہے جس کی روسے پاکستان نے مسلسل دوسری مرتبہ ”پورن سا ئٹس ” کو ”لاگ آن” کرنے میں سب کو پیچھے چھوڑنے کا اعزاز برقرار رکھا ہے۔ دوسری مرتبہ ہم عریا ں مناظر سے محضوظ ہونے والے ملک کے طور پر اقوام عالم کو مات دے ڈالی ہے۔ ایک اسلامی ملک کا یہ ”اعزاز”اسلامیان وطن کو تا ابد شرمندہ کرنے کیلئے کافی ہے ۔مقام افسوس تو یہ ہے کہ مملکت پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے دعوے دار مذہبی جماعتوں میں سے کسی کے ایک کان پر بھی جوں تک نہیں رینگی اور کسی بھی مذہبی جماعت نے اس ”نان ایشوز”پر نہ کوئی مذمتی بیان داغا ہے اور نہ ہی کسی دھرنے کی کال دی ہے نہ ہڑتال کا اعلان کی ہے

نہ ہی احتجاج کی مژدہ سنایا ہے۔ ہماری یہی دو عملی ہمیں اقوام عالم میں رسواکر رہی ہے اور افسوس کہ ہم خاموش سمجھوتے کے عادی ہو چکے ہیں۔(جب کسی طرف سے کوئی آوازنہ سنی تو میںنے اس” نان ایشو”پر قلم کشائی کا فیصلہ کیا) ہماری دوعملی کا عملی مظاہرہ چندماہ قبل ایک ٹی وی ٹا ک شو میں دیکھنے میں آیا۔ جس میں ایک نام نہاد روشن خیا ل خاتون وینا ملک کی ”حرکات اور اثاثے ”ظاہر کرنے پر تبصرہ فرما رہی تھیں۔ محترمہ نے فرمایا کہ ہمارے ملک کانام اب پاکستان کی بجائے ”پورنستان”رکھ دیا گیا ہے۔ راقم کو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ شکر ہے روشن خیال لوگوں نے بھی عریانی کو ”آرٹ” کی بجائے نازیبا ”حرکات” سے تعبیر کیا ہے مگر اگلے ہی لمحے ہماری ساری مسرت کا فورہو گئی جب محترمہ نے فرمایا کہ اگر وینا ملک نے عریاں تصاویر کھچوائی ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ آخر یہ اسکا ذاتی معاملہ ہی تو ہے۔ کیونکہ جسم اس کا اپنا ہے لہذا اس کے ”استعمال” میں بھی اسے پوری آزادی حاصل ہے۔ یہ ہے ہماری دوعملی اور کھلی منافقت کہ ہم ایک ہی وقت میں پاکستان کو ”پورنستان” بنائے جانے کے صدمے کا شکار بھی ہیں اور عریانی کو انسان کی ذاتی فعل بھی گردانتے ہیں ۔جب آپ نیٹ تک رسائی میں کھلی چھوٹ دیں گے تو آپ کو اس طر ح ”کارناموں” کے لئے ہمہ وقت تیا ر رہنا ہو گا۔

میڈیا نے معاشرے میں جن مثبت رجحانات کو فروغ دیا ہے اس سے ہرگز انکار ممکن نہیں میڈیا کی عوام کی زندگی میں اثرپذیری زورروشن کی طرح عیاں ہے۔ لیکن عریانی، بے مقصدیت اور شتر مہار آزادی نے وہ گل کھلائے ہیں جو سنجیدہ حلقو ں کے لئے کسی سوہانِ روح سے کم نہیں۔ اس سلسلے میں میڈیا نے جو ”حصہ” ڈالا ہے اس سے بھی چشم پوشی ہرگز ممکن نہیں ۔کیا ہمارا میڈیا اس حقیقت سے آنکھیں چراسکتا ہے کہ فحاشی کے ہوشربا پھیلائو میں میڈیا نے ایک گمراہ کن کردار ادا کیا ہے۔ بجائے اس کے کہ میڈیا اپنی قو ت کو معاشرے میں اچھے رجحانا ت کو فروغ دینے میں صرف کرتا، اس نے بے مقصدٹاک شوز، نامعقول قسم کے کرنٹ افیئر کے پروگرام اور جرم و سزا کے عنوان سے پروگرام پیش کر کے معاشرے کے بگاڑمیں اپناگھنائوناکرداراداکیا ہے۔ہماراالیکڑانک میڈیابے مقصدیت کے جس محور کے گر دگھو م رہا ہے وہ اس ملک کے سنجیدہ و پروقارحلقوں(مصلحت آمیز خاموشی اور مجرمانہ غفلت کے حامل )کے لئے کسی قیامت سے ہر گزکم نہیں۔رہی سہی کسر کمپیوٹرزاور سیل فون کے ذریعے نیٹ تک آسان رسائی نے پوری کر ڈالی ہے۔ جگہ،جگہ نیٹ کیفے ہماری قو م کے نو جوان ذہنوںکو تباہ کر نے پر تلے ہو ئے ہیں۔انتظامیہ اورسول سو سائٹی کی مجرمانہ خاموشی سے سوائے اس کے اور کیا نتیجہ اخذکیا جا سکتاہے کہ ہم نے ہتھیارڈال د یے ہیںاور لمحہ بہ لمحہ تباہی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔

Newspaper

Newspaper

زیادہ عرصہ نہیں گزراجب سو نیا گاندھی کے ایک بیان نے ہمارے ملک میںتہلکہ مچا دیا تھا۔واقعی اس نے سچ کہا تھا کہ ثقافتی محاذپر انڈیا نے جنگ جیت لی ہے ۔ان کا میڈیا کب کا ہمیں شکست فاش دے چکا ہے۔آج ہمارے اکثر ٹی وی چینلز پر گہری انڈین ثقافت کی چھاپ نظر آتی ہے ۔ہمارا کو ئی ”خبر نامہ”انڈین ادا کاروںکے بارے میں خبرو ں سے خالی نظر نہیں آتا ۔ہمارے نیوز چینلز اور اکثر اخبار و جرائدبھی خاص،خاص خبروںمیں بھارتی اداکاروں کی خاص خبر کو شامل کرنا اپناقومی فریضہ سمجھتے ہیں۔الیکٹرانک میڈیانے اپنی آزادی کو جس بھونڈے انداز سے ”مس یوز”کیا ہے اسے ہم اپنا قومی المیہ قراردے سکتے ہیں۔بے مہار آزادی نے اس ملک کی” نظریاتی ”جڑوںکو کھوکھلاکر ڈالا ہے۔

یہ بھی ہمارا قو می مزاج ہے کہ ہم محض مسا ئل کے تذکروںسے ہی جی بہلالیتے ہیںاور مسائل کے سد باب کے لئے عملی اقدامات کر نے سے بہر طور پر پہلو تہی کی کو شش کرتے ہیں۔ ان چند سطور کے ذریعے میں اپنے محترم قارئین سے دست بستہ اپیل کرتاہوںکہ وہ اس مو ضوع پر نہ صرف یہ کہ تجاوز پیش فرما ئیںبلکہ عملی اقدامات کے ذریعے قوم کو ایک متوقع تباہی سے بچانے کے لئے اپنا ،اپناکردار اداکر یں۔اگر ہم نے اس سلسلہ میں ٹھوس عملی اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلیںہمیںکبھی معاف نہیںکریںگی۔آئیں کام کریں ۔کرنے کے کام۔

Safder Hydri

Safder Hydri

تحریر:صفدر علی حیدری