تحریر : عفت کراچی کی سڑکوں پہ ٹریفک کا ہجوم ہے ۔چند وی۔ آئی۔پیز کی آمد کی وجہ سے راستے بلاک ہیں ۔ایسے میں ایک مجبور باپ کی نظریں کبھی اپنی گود میںتڑپتی بچی پہ ہوتی ہیں کبھی بے قراری سے ہجوم پہ کہ وہ کس طرح اڑ کر اپنی بچی کو ہسپتال لے جائے ہر طرف پولیس اسے روک لیتی ہے ۔بچی کی بگڑتی حالت پہ ماں باپ کا دل خون ہو رہا مگر وہ ارباب ِ اختیار کے ان خود ساختہ پروٹوکول کے ہاتھوں مجبور ہے اس کے لیے یہ گھڑیاں قیامت خیز ہیں اور ایک ایک لمحہ قیمتی ۔کافی دیر بعد اسے راستہ ملتا ہے مگر اس سے دس منٹ قبل کمبل میں لپٹا وجود اس انتظار کی تاب نہ لا کر ساکت ہو چکا ہے ۔اسپتال کے گیٹ پہ پہنچ کر باپ دیوانہ وار اندر کی طرف دوڑتا ہے مگر بہت دیر ہوچکی ہے اورموت زندگی کو شکست دے کر مسکراتی ہوئی جا چکی ہے ۔ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر دس منٹ قبل بچی اسپتال پہنچ جاتی تو وہ اسے بچا سکتے تھے ۔بانہوں میں جھلانے والا باپ سکتے کی حالت میں ننھی بسمہ کے ساکت وجود کو دیکھے جا رہا ہے چند گھنٹے قبل زندگی سے بھرپور گرم وجود موت کے سرد سناٹے میں تبدیل ہو چکا ہے ۔کون ہے اس کا ذمہ دار؟؟؟یہاں ایک قابل ِ ذکر بات ہے کہ جب اس معاملے کو اٹھایا گیا تو پولیس بسمہ کے باپ کے پاس بیان لینے آئی تو اس نے کہا کہ میں پی پی پی کا کارکن ہوں اور بلاول میرا لیڈر ہے
بسمہ کی موت رضائے الہی ہے ۔یہاں اب خدا جانے یہ بیان پولیس کی دہشت ہے جو گدھوں کو بھی یہ کہنے پہ مجبور کر دیتی کہ میں شیر ہوں اور شیر کہتا ہے کہ میں گدھا ہوں میں گدھا ہوں ۔اب دوسرا رخ ملاحظہ کریں بسمہ کا باپ فیصل بلوچ لیاری کا رہائشی ہے ۔جب اس معاملے کی ڈھنڈیا مچی تو پی پی پی اور بلاول کی ساکھ بچانے کے لیے وزیر ِاعلی قائم علی شاہ لیاری پہنچے اور ہرکارے کے طور پہ ممبر قومی اسمبلی محمد شاہ جہان بلوچ کو فیصل بلوچ کے گھر روانہ کیا اور بات چیت طے ہوگئی ،اس کے بعدپولیس فیصل کو اٹھا کر نادیہ گبول کے گھر لے گئی جہاں موجود قائم علی شاہ نے اظہار ِ تعزیت کی اور پھر اس کے لیے سرکاری نوکری کا اعلان ہوا اسی وقت بیان میں یہ ٹوئسٹ آیا کہ بچی پہلے سے بیمار تھی اور جس راستے وہ ہسپتال پہنچا وہ راستہ کلیئر تھا ۔ اب اصل کہانی کیا ہے؟؟مجبوری یا حکم حاکم مرگ مفاجات۔
دولت نے جہاں زندگی کو طبقاتی حصوں میں بدل دیا ہے وہاں انسانوں کو بھی تقسیم کر دیا ہے ان کی زندگیوں کی الگ الگ قیمت ہے امیر کی جان قیمتی اور غریب عوام کی بے قیمت ۔مقام ِ افسوس کہ ہم اس پہ ببانگ ِ دہل کہتے ہیں کہ بلاول قیمتی ہے اور بسمہ کی زندگی بے قیمت ۔کمال ِفن ہے یا شانِ بے نیازی یا حیوانیت یا بے حسی اس کا فیصلہ آپ کا دل دماغ کرے گا اگر آپ کا ضمیر زندہ ہو تو ۔کراچی میں ہونے والا یہ افسوس ناک واقعہ ملگ بھر کا موضوع سخن بن گیا بات بھی افسوس ناک ہے مگر اس کے ردِعمل کے بیانات اس سے بھی ذیادہ افسوس ناک ہیں ۔جانے کب تک ہم اس پروٹوکول کے صدمات سہیں گے۔
Democratic
ہم جمہوری حکومت ،آزاد حقِ رائے دہی کی بات کرتے ہیں مگر در حقیقت ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ۔غریب عوام ہر جگہ ظلم کی چکی میں پستے نظر آتے ہیں ۔وہ عوام جس کے کاندھے پہ چڑھ کر تمام ارباب ِاختیار کرسی تک رسائی حاصل کرتے ہیں جن کی قربانیوں کے عوض یہ تخت نشین ہوتے ہیں وہ عوام ہی ان کی نظر میں بے قیمت ہیں تو اللہ ہی حافظ ہے ۔یہ کوئی ایک واقعہ تو نہیں بلکہ جائزہ لیں تو بہت سی معصوم جانیں ان پروٹوکول اور وی آئی پیز کلچر کی نظر ہوئیں ہیں ہر دور میں اس کی مخالفت کی گئی میڈیا اور عوام دہائی دیتی رہی مگر ان کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی یہاں تو وہ بات ہے ،،چھٹتی نہیں ہے کافر منہ سے لگی ہوئی ،وی آئی پیز کلچر اب معاشرے کے لیے ایک ناسور کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
زندگی کے ہر معاملے میں یہ غریب کی جان کا دشمن ہے۔خواہ وہ تعلیمی میدان ہو یا سماجی صحت کا معاملہ ہو یا تقسیم ِ زر،نوکریوں کا حصول ہو یاسہولیات کا بٹوارہ۔ہر موقع پر یہ سامنے آجاتا ہے ہم لاکھ اس سے دامن بچائیں مگر اس سے بچائو ممکن نہیں ۔میں سیدھی اور کھری بات کروں تو یہ سب ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے اور ہمارے وی آئی پیز خود اپنے علاوہ اور کو بھی انسان سمجھیں اور سب کو برابر کے حقوق ملیں تب ہی یہ ممکن ہے ۔جب سب عام عوام کی زندگی بسر کریں کیونکہ پاکستان در حقیقت عام آدمی کا ہی پاکستان ہے اور انہی کی وجہ سے قائم ہے ۔نجانے کیوں ہم کبھی بغیر تاوان اور قربانی کے سبق نہیں سیکھتے ،١٦دسمبر کے شہداء نے ہمیں دہشت گردی کے خلاف یکجا کیا کیا بسمہ کی موت وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کر پائے گی؟؟
Islam
اسلامی دور ِحکومت تھا جب حکمران خوف ِخدا کے تحت راتوں کو بھیس بدل کر عام عوام میں حالات کا جائزہ لینے نکلا کرتے تھے جہاں ایک جانور کے بھوکا ہونے کی پرسشش نیند اڑا دیتی تھی ۔ عمر بن عبدالعزیز کا کھانا لنگر سے آتا جس کی وہ رقم ادا کیا کرتے تھے ۔حضرت ابو بکر نے آٹے کا حلوہ پکنے پہ آٹے کی مقدار کم کروا دی کہ یہ ضرورت سے زیادہ ہے ۔کیا تب کوئی بادشاہت نہ تھی؟یا مال وز کی کمی تھی ؟ نہیں ہر گز ایسا نہیں تھا بس خوف ِخدا تھا حکومت عوام کی تھی اور اسے حق حاصل تھا کہ کس غیر مساوی تقسیم پہ جواب طلبی کا حق حاصل تھا ۔برتری اور فوقیت کا پیمانہ تقوی تھا ۔بحر طور جب تک ہم ان باتوں پہ غور نہیں کریں گے تو اسی طرح نقصان اٹھانے کے لیے تیار رہنا ہو گا ۔کیا اب کسی اور بسمہ کو قربان ہونا ہوگا؟؟؟؟