تحریر: ڈاکٹر مظہر جب سے پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز ہو اہے، اب تک ہزاروں بے گناہ معصوم افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ، ان میں بزرگ ، جوان ، معصوم بچے اور خواتین سبھی شامل ہیں ویسے تو دہشت گردی کے تمام واقعات بھیانک خیز ہوتے ہیں مگر چند ایک ایسے واقعات رونما ہوئے جن کو دیکھ کر انسانیت بھی کانپ اٹھی ، ان میں سب سے زیادہ دل ہلا دینے والا واقعہ سانحہ پشاور اے پی ایس کا تھا ۔ اسی طرح ہمارے مقدس مقامات جن میں مساجد ، جنازہ گاہ، دربار ،چرچ ، مندر ، کالج اور یونیورسٹیوں کے علاوہ شہر کے چوک چوراہوں غرضیکہ کوئی ایسا شعبہ یا مقام نہیں بچا، جہاں دہشت گردوں نے اپنے ناپاک فعل سر انجام نہ دیئے ہوں ۔ خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے رونما ہونے والے واقعات کا سامنا سب سے پہلے ایسے محافظوں کو کرنا پڑتا ہے جو کہ ہمہ وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمنوں کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں اور جب کوئی دہشت گرد اپنا مکروہ فعل پورا کرنے کے لئے حملہ آور ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میری مراد محکمہ پولیس سے ہے۔
جن کے جوان دن کے چوبیس گھنٹے عوام کی حفاظت کے لئے جون کی تیز وتند دھوپ کی گرمی ہو یا دسمبر کی برف پوش سردی ،یہ اپنی ڈیوٹی پر کھڑے نظر آئیں گے ۔ جلسے جلوس ہوں یا احتجاجی ریلیاں /وزراء کا جی ٹی روڈ سے گذر ہو یا کسی جج کا پروٹوکول /مساجد میں جمعہ ،عیدکی نماز ہو یا چرچ کی عبادات /اہل تشہیع کے جلوس ہوں یا امام بارگاہوں کے باہر سیکورٹی کے انتظامات ۔غرضیکہ ہر چوک چوراہے اور پبلک مقامات پر ڈیوٹی سر انجام دینے کے لئے ہمہ وقت تیار نظر آئیں گے ، اسی طرح چور ڈکیت اور اشتہاریوں کو پکڑنے کے لئے پولیس مقابلے ہوں،اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنا فرض نبھا نے میں مصروف عمل دکھائی دیں گے ۔
افواج پاکستان اگر ملکی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہے تو محکمہ پولیس سرحد کے اندر ہر گلی ، محلے ، چوراہے ، بازار ، ادارے یعنی 18 کروڑ عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ضامن ہے ، اگر پاک آرمی دشمن کو سرحد عبور کرنے سے روک رہی ہے تو پولیس نے امن و امان کے قیام کا بیڑہ بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا رکھا ہے ، اگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ حساس ترین فرائض یہ ادا کررہے ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔بلاشبہ ان کی وجہ سے ہی ہم اپنے گھروں میں سکون کی نیند سورہے ہوتے ہیں ، جبکہ یہ رات بھر ہماری حفاظت کے لئے پہروں پر مامور ہوتے ہیں۔
Police
دہشت گرد عناصر یا دشمن جب اپنے مکروہ فعل کے لئے ارادہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس علاقے میں تعینات پولیس جوان ، افسران اور تھانوںسے متعلق اپنا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں ،یہ لائحہ عمل وہ اپنی تخریب کاری کے لئے ان سے چھپ کرکریں یا ان کو گولیوں کا نشانہ بنا کرکریں ، ہر دو صورتوں میں اپنا ناپاک فعل سرانجام دینا ہوتا ہے ، ایسے کئی واقعات میں پولیس نشانہ بنی ۔ ماڈل ٹائون کا واقعہ ہو یا تھانہ لِلہ کا / کراچی کے حالات ہوں یا اٹک میں وزراء کا سیکورٹی رسک ،نشانہ ہمیشہ پولیس ہی بنی۔ بیسیوں واقعات میں ابتک سینکڑوں پولیس جوان اور افسر شہادت کے رتبے پر فیضیاب ہوچکے ہیں۔
محکمہ پولیس وہ شعبہ ہے جس کے جوان اور افسر اپنی ڈیوٹیاں گولیوں کی بوچھاڑ اور خود کش دھماکوں کے عین وسط میں سر انجام دیتے ہیں، ایسا وقت بھی آتا ہے جب ملک دشمن عناصر اور تخریب کاروں کے ڈر ، خوف سے کوئی بھی شہری گھروں سے باہر نہیں نکل سکتا تو اس وقت بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرگولیوں کے نشانے پر ہونے کے باوجود اپنی ڈیوٹی کو فرض اور عوام کے تحفظ کی قسم کھانے کو پورا کرنے کے لئے میدان عمل میں آکھڑے ہوتے ہیں ۔وہ پولیس جوان جو کہ سیکورٹی تھریٹس ملنے والے مقامات پر بے دھڑک ڈیوٹی سرا نجام دے رہے ہوتے ہیں مگر ہم نے کبھی ان کے جذبات کی قدر نہیں کی اور نہ ہی کبھی انکو گلے لگایا۔ اس محکمہ میں کئی ایسے نامور سپوت پیدا ہوئے کہ جو اپنی بہادری ، دلیری اور فرض شناسی کی وجہ سے دشمنوں کے لئے دہشت کا نشان بن گئے ، وہ جہاں بھی گئے قانون شکن اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبورہو گئے ، یہی اصل میں وطن کی وفاداری ہے ، ایسے لوگ ہی دراصل خراج تحسین کے لائق ہیں۔
بہادری اور جرأت مندی ان کا اثاثہ اورشہادت ان کا زیور ہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں مجھے کہنے دیں کہ ایسے نامور لوگ ہی اپنے شعبے میں قومی ہیرو ہوتے ہیں ، مثلاًایس ایس پی چوہدری محمد اسلم جو کہ کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف وطن عزیز کی خاطر جام شہادت نوش کر گئے ، ڈی ایس پی حضروجو کہ اٹک میں وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ کی سیکورٹی پر مامور تھے وہ بھی دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے ، ایس ایس پی چوہدری محمد اسلم مرحوم و مغفور اور ڈی ایس پی حضروجیسے قومی ہیروز کی ہر ضلع میں شہادت کے شواہد ملتے ہیں ،جس پر ملک و قوم کو فخر بھی ہے اور محکمہ پولیس پر ناز بھی ہے ، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محکمہ پولیس کے افسران و ملازمین کسی بھی مشکل گھڑی میں اپنی جان کے نذرانے دینے سے نہیں گھبراتے مگر افسوس کہ محکمہ پولیس کو عوام اور حکومتی سطح پر وہ پذیرائی اور قومی اعزازات سے نہیں نوازا جاتا جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔
Policeman Shaheed
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر جہلم مجاہد اکبر خان صاحب نے یوم شہداء پولیس کے موقع پر پولیس جوانوں ، افسران اور شہداء کے ورثاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہمیں اپنے شہداء پر فخر ہے کہ انہوں نے وطن کی مٹی کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ شہداء کی روحیں سوال کرتی ہونگی کہ ہم نے تو وطن کیلئے جان کے نذرانے دیئے مگر کیا ہماری قربانیوں کی قدر بھی کی گئی ، ڈی پی او جہلم صاحب نے مزید کہا کہ یہ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ شہداء کے بچوں کی کفالت اچھے طریقے سے کی جائے ، اس موقع پر انہوں نے محکمہ کی طرف سے شہداء کے ورثاء میں سرٹیفیکیٹس اور دیگر تحائف پیش کرکے ثابت کر دیا کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور کبھی بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے ، بلا شبہ ڈی پی او صاحب کا یہ کردار قابل تعریف اور لائق تحسین ہے ، مگر بحثیت پاکستانی ہم پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کیلئے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں ، حکومت کو چاہیئے کہ وہ محکمہ پولیس میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والوں کو پاک فوج کے جوانوں اور افسران کی طرح نوازیں،جس کے یہ حقیقی معنوں میں مستحق ہیں ،یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر پولیس نہ ہوتو انسانوں کی بستیاں بھی جنگلوں کا سا نمونہ پیش کرنے لگیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس شعبے کی پذیرائی کی راہ میں رکاوٹ کے کچھ اسباب ہیں۔
جن پر توجہ کی ضرورت ہے۔ پہلی تجویز یہ کہ محکمہ پولیس کو سیاست سے بالاتر ہونا چاہیئے تاکہ کوئی سیاستدان پولیس کو اپنی ذاتی جاگیر نہ سمجھے اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال نہ کر سکے۔ دوسری تجویز دیگر محکموں کی طرح محکمہ پولیس میں بھی ڈیوٹی اوقات ہونے چاہیئے ، اس سے بے روزگاری کا بھی خاتمہ ہوگا اور محکمے کا معیار بھی بلند ہوگا ۔ تیسری تجویز جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہ ذرائع ابلاغ کو بھی پولیس کی کارکردگی کی حمایت کے لئے آگہی دینا ہوگی۔
لقمہ اجل بن چکے ہیں ، ان میں بزرگ ، جوان ، معصوم بچے اورخواتین سبھی شامل ہیں ۔ویسے تو دہشت گردی کے تمام واقعات بھیانک خیز ہوتے ہیں مگر چند ایک ایسے واقعات رونما ہوئے جن کو دیکھ کر انسانیت بھی کانپ اٹھی ، ان میں سب سے زیادہ دل ہلا دینے والا واقعہ سانحہ پشاور اے پی ایس کا تھا ۔ اسی طرح ہمارے مقدس مقامات جن میں مساجد ، جنازہ گاہ، دربار ،چرچ ، مندر ، کالج اور یونیورسٹیوں کے علاوہ شہر کے چوک چوراہوں غرضیکہ کوئی ایسا شعبہ یا مقام نہیں بچا، جہاں دہشت گردوں نے اپنے ناپاک فعل سر انجام نہ دیئے ہوں ۔ خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے رونما ہونے والے واقعات کا سامنا سب سے پہلے ایسے محافظوں کو کرنا پڑتا ہے جو کہ ہمہ وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمنوں کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوتے ہیںاور جب کوئی دہشت گرد اپنا مکروہ فعل پوراکرنے کے لئے حملہ آور ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میری مراد محکمہ پولیس سے ہے۔ جن کے جوان دن کے چوبیس گھنٹے عوام کی حفاظت کے لئے جون کی تیز وتند دھوپ کی گرمی ہو یا دسمبر کی برف پوش سردی ،یہ اپنی ڈیوٹی پر کھڑے نظر آئیں گے ۔
جلسے جلوس ہوں یا احتجاجی ریلیاں /وزراء کا جی ٹی روڈ سے گذر ہو یا کسی جج کا پروٹوکول /مساجد میں جمعہ ،عیدکی نماز ہو یا چرچ کی عبادات /اہل تشہیع کے جلوس ہوں یا امام بارگاہوں کے باہر سیکورٹی کے انتظامات ۔غرضیکہ ہر چوک چوراہے اور پبلک مقامات پر ڈیوٹی سر انجام دینے کے لئے ہمہ وقت تیار نظر آئیں گے ، اسی طرح چور ڈکیت اور اشتہاریوں کو پکڑنے کے لئے پولیس مقابلے ہوں،اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنا فرض نبھا نے میں مصروف عمل دکھائی دیں گے ۔ افواج پاکستان اگر ملکی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہے تو محکمہ پولیس سرحد کے اندر ہر گلی ، محلے ، چوراہے ، بازار ، ادارے یعنی 18کروڑ عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ضامن ہے ، اگر پاک آرمی دشمن کو سرحد عبور کرنے سے روک رہی ہے تو پولیس نے امن و امان کے قیام کا بیڑہ بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا رکھا ہے ، اگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ حساس ترین فرائض یہ ادا کررہے ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔بلاشبہ ان کی وجہ سے ہی ہم اپنے گھروں میں سکون کی نیند سورہے ہوتے ہیں ، جبکہ یہ رات بھر ہماری حفاظت کے لئے پہروں پر مامور ہوتے ہیں ۔
Police Station Terrorists Attack
دہشت گرد عناصر یا دشمن جب اپنے مکروہ فعل کے لئے ارادہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس علاقے میں تعینات پولیس جوان ، افسران اور تھانوں سے متعلق اپنا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں ،یہ لائحہ عمل وہ اپنی تخریب کاری کے لئے ان سے چھپ کرکریں یا ان کو گولیوں کا نشانہ بنا کرکریں ، ہر دو صورتوں میں اپنا ناپاک فعل سرانجام دینا ہوتا ہے ، ایسے کئی واقعات میں پولیس نشانہ بنی ۔ ماڈل ٹائون کا واقعہ ہو یا تھانہ لِلہ کا / کراچی کے حالات ہوں یا اٹک میں وزراء کا سیکورٹی رسک ،نشانہ ہمیشہ پولیس ہی بنی۔ بیسیوں واقعات میں ابتک سینکڑوں پولیس جوان اور افسر شہادت کے رتبے پر فیضیاب ہوچکے ہیں۔ محکمہ پولیس وہ شعبہ ہے جس کے جوان اور افسر اپنی ڈیوٹیاں گولیوں کی بوچھاڑ اور خود کش دھماکوں کے عین وسط میں سر انجام دیتے ہیں، ایسا وقت بھی آتا ہے جب ملک دشمن عناصر اور تخریب کاروں کے ڈر ، خوف سے کوئی بھی شہری گھروں سے باہر نہیں نکل سکتا تو اس وقت بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرگولیوں کے نشانے پر ہونے کے باوجود اپنی ڈیوٹی کو فرض اور عوام کے تحفظ کی قسم کھانے کو پورا کرنے کے لئے میدان عمل میں آکھڑے ہوتے ہیں ۔وہ پولیس جوان جو کہ سیکورٹی تھریٹس ملنے والے مقامات پر بے دھڑک ڈیوٹی سرا نجام دے رہے ہوتے ہیں مگر ہم نے کبھی ان کے جذبات کی قدر نہیں کی اور نہ ہی کبھی انکو گلے لگایا۔
اس محکمہ میں کئی ایسے نامور سپوت پیدا ہوئے کہ جو اپنی بہادری ، دلیری اور فرض شناسی کی وجہ سے دشمنوں کے لئے دہشت کا نشان بن گئے ، وہ جہاں بھی گئے قانون شکن اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبورہو گئے ، یہی اصل میں وطن کی وفاداری ہے ، ایسے لوگ ہی دراصل خراج تحسین کے لائق ہیں ، بہادری اور جرأت مندی ان کا اثاثہ اورشہادت ان کا زیور ہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں مجھے کہنے دیں کہ ایسے نامور لوگ ہی اپنے شعبے میں قومی ہیرو ہوتے ہیں ، مثلاًایس ایس پی چوہدری محمد اسلم جو کہ کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف وطن عزیز کی خاطر جام شہادت نوش کر گئے ، ڈی ایس پی حضروجو کہ اٹک میں وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ کی سیکورٹی پر مامور تھے وہ بھی دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے ، ایس ایس پی چوہدری محمد اسلم مرحوم و مغفور اور ڈی ایس پی حضروجیسے قومی ہیروز کی ہر ضلع میں شہادت کے شواہد ملتے ہیں ،جس پر ملک و قوم کو فخر بھی ہے اور محکمہ پولیس پر ناز بھی ہے ، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محکمہ پولیس کے افسران و ملازمین کسی بھی مشکل گھڑی میں اپنی جان کے نذرانے دینے سے نہیں گھبراتے مگر افسوس کہ محکمہ پولیس کو عوام اور حکومتی سطح پر وہ پذیرائی اور قومی اعزازات سے نہیں نوازا جاتا جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر جہلم مجاہد اکبر خان صاحب نے یوم شہداء پولیس کے موقع پر پولیس جوانوں ، افسران اور شہداء کے ورثاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہمیں اپنے شہداء پر فخر ہے کہ انہوں نے وطن کی مٹی کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ شہداء کی روحیں سوال کرتی ہونگی کہ ہم نے تو وطن کیلئے جان کے نذرانے دیئے مگر کیا ہماری قربانیوں کی قدر بھی کی گئی ، ڈی پی او جہلم صاحب نے مزید کہا کہ یہ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ شہداء کے بچوں کی کفالت اچھے طریقے سے کی جائے ، اس موقع پر انہوں نے محکمہ کی طرف سے شہداء کے ورثاء میں سرٹیفیکیٹس اور دیگر تحائف پیش کرکے ثابت کر دیا کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور کبھی بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے ، بلا شبہ ڈی پی او صاحب کا یہ کردار قابل تعریف اور لائق تحسین ہے ، مگر بحثیت پاکستانی ہم پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کیلئے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں ، حکومت کو چاہیئے کہ وہ محکمہ پولیس میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والوں کو پاک فوج کے جوانوں اور افسران کی طرح نوازیں،جس کے یہ حقیقی معنوں میں مستحق ہیں ۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر پولیس نہ ہوتو انسانوں کی بستیاں بھی جنگلوں کا سا نمونہ پیش کرنے لگیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس شعبے کی پذیرائی کی راہ میں رکاوٹ کے کچھ اسباب ہیں، جن پر توجہ کی ضرورت ہے۔ پہلی تجویز یہ کہ محکمہ پولیس کو سیاست سے بالاتر ہونا چاہیئے تاکہ کوئی سیاستدان پولیس کو اپنی ذاتی جاگیر نہ سمجھے اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال نہ کر سکے۔ دوسری تجویز دیگر محکموں کی طرح محکمہ پولیس میں بھی ڈیوٹی اوقات ہونے چاہیئے ، اس سے بے روزگاری کا بھی خاتمہ ہوگا اور محکمے کا معیار بھی بلند ہوگا ۔ تیسری تجویز جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہ ذرائع ابلاغ کو بھی پولیس کی کارکردگی کی حمایت کے لئے آگہی دینا ہوگی۔