تحریر: شہزاد سلیم عباسی عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ عسکری اور غیر عسکری قوت کا نام ہے حالانکہ یہ کلی اور محاورتی اصطلاحات ہیں ۔ شاید یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سول وملٹری بادشاہت یا سکونت کا نام ہی نہیں ہے بلکہ معاشرے کے چنگل میں رہتے ہوئے وفاقی ، صوبائی حکومتوں ، سرکاری اداروں، خود مختار و غیر مختار اداروں، یونیورسٹیوں اور مشنری کالجز بھی اسٹیبلشمنٹ ہیں جوحکومتی(سرکاری) اسٹیبلشمنٹ کہلاتی ہے۔اشتہاری ایجنسیاں، فیکٹری کا دفتری عملہ، سٹاک کمپنی، انشورنس کمپنی، بینکنگ کمپنی، بینک ، بروکر، اسٹا ک ایکسچینج، کلب ہوٹل ، ریسٹورنٹ، سنیما اور تھیٹر وغیر ہ کمرشل اسٹیبلشمنٹ کہلاتے ہیںاور تیسری اسٹیبلشمنٹ انڈسٹری کا پہیہ گھماتی ہے جس میں فیکٹری، ریلوے ، کنسٹریکشن اور ٹھیکے شامل ہوتے ہیں۔ دو کلی اور تین ذیلی (جزوی) اصطلاحات ملا کر اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک اسٹیبلشمنٹ کا کہیں نہ کہیں کردارموجودہے اب مرضی اسٹیبلشمنٹ کی ہے کہ اچھے، مثبت، بروقت اور ذمہ دارانہ امور کی انجام دہی سے عوام کی دعائیں سمیٹے یا مالی غبن اور ذہنی پستی کی بدولت ٹی وی، اخبارات ، سوشل میڈیا ، نجی محافل اور پھر کل قیامت والے دن بھی ذلیل وخوار ہوتی پھرے۔
انسانی حقوق کا عالمی قانون 3 دسمبر ( معذورافراد کا عالمی دن) ہمیں تمام تر بنیادی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے۔ہمارے ملکی قانون میں معذور افراد کے لیے خصوصی مراعات رکھی گئی ہیں۔ 1981ء کے قومی ایکٹ برائے معذوراں میں معذور افراد کے لیے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ، علاج کی مفت سہولتیں اور ان کے اعضاء کی بحالی کے اقدامات کو شامل کیا گیا۔اس کے علاوہ معذور افراد کے بچوں کی سرکاری اداروں میں 75 فیصد جبکہ پرائیویٹ اداروں میں 50 فیصد فیس معافی اور روزگار کی فراہمی بھی اس قانون کا حصہ ہیں۔ پاکستان نے معذور افراد کی بحالی کے عالمی کنونشن میں بھی دستخط کیے ہوئے ہیں۔
Disabled Persons
ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی تیس کروڑ آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد معذور ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ملک میں معذور افراد کی صورتحال کا جائزہ لیں توسرکاری اور نجی دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، شاپنگ سینٹرز، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشنوں اورہسپتالوں میں معذور افراد کو رسائی باآسانی ممکن نہیں۔ چونکہ عمارتوں کے انفراسٹرکچر میں معذور افراد کی رسائی کو آسان بنانے کے لیے ریلنگ اور ریمپ نہیں بنائے جاتے جس کی وجہ سے جگہ جگہ معذور افراد کو اذیت کا احساس ہوتا ہے اور ان کی اکثریت گھروں تک محدود ہوجاتی ہے۔معذوروں کی بحالی اور حکومتی ترجیحات” نظر نہیں آتیں ۔ خیرمعذور افراد کی بحالی کا کام جو تھوڑا بہت نظرا تا ہے وہ پنجاب میں ہے لیکن یہ ناکافی ہے اور باقی صوبے تو ایسے خاموش ہیں جیسے وہ انسانی حقوق میں خصوصی افراد کی شق کو منسوخ کرنا چاہتے ہیں۔
اسمبلیوں میںشراب ،پسے مردوں کے حقوق اور بسنت وغیر ہ پرتو گرما گرم بحثیں ہوتی ہیں لیکن بیچارے خصوصی افراد کے لیے بات کیوں نہیں ہوتی؟حکومتوں کی جانب سے اقدامات کے اعلانات کے باجودخصوصی افراد کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔اگر آبادی کے تناسب سے دیکھیں تو پنجاب میں نوے لاکھ معذور افراد ہیں جبکہ دو ارب روپے کی حکومتی امداد دو سو بائیس روپے فی کس بنتی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے۔ حکومت کی خاموشی مجرمانہ غفلت ہے۔اگرچے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے معذور افراد کی بحالی کے لئے 6برس پہلے سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن بدقسمتی سے خواہش پوری نہ ہوسکی ۔ دیکھا جائے توپتہ چلتا ہے کہ جتنی امداد حکومت معذ ور افراد کی کرتی ہے اتنی تو شاید الخدمت فائونڈیشن جیسے ادارے بھی کردیتے ہوں ۔الخدمت کی معذورافراد کے لیے کی جانے والی خدمات کے بارے میں معلوم ہو ا کہ الخدمت فائونڈیشن ہزاروں کی تعداد میں ویل چیئرز مستحق افراد میں تقسیم کر چکی ہے ۔
Disabled people Quota
بہرحال وقت کا تقاضا ہے خصوصی افراد کے لیے مخصوص کوٹہ پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے نیا قانون بنایا جائے ۔ ممکن ہو تو معذور افراد کے لیے علیحدہ وزارت قائم کی جائے۔معذور افراد کا کوٹہ کم از چھے فیصد کیا جائے۔ ہیلتھ کارڈ کے اجراء سے ہٹ کر میٹروبس جتنا بجٹ ہی مختص کر کے اسے ریلیز کے قابل بنایا جائے جس سے معذور افراد کے سفری اخراجات میں رعایت،ہر بڑے سرکاری ہسپتال میں کم از کم دس بستر،سکول ، کالج اور یونیورسٹی حصول تعلیم کے لیے خصوصی رعایت اور کوٹہ ،ووکیشنل ٹریننگ اور سکل ڈویلپمنٹ کے قیام ،پولیو ، ای پی آئی وغیرہ، جیسے مقاصد حاصل کیے جائیں۔ قانون ساز اداروں، سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں معذور افراد کو نمائندگی دی جائے۔
حکومت کاسمیٹک اقدامات کے بجائے مستقل بنیادوں پر ملک کے ان بدقسمت باسیوں کوزمانے کے بے رحم تھپیڑوں سے بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ 1998 ء کے بعد مردم شماری بھی نہیں ہو سکی ، 2017 میں مردم شماری کا اہتمام کرے۔ویسے تو ہمارا ہر نظام اصلاحات کا متقاضی ہے لیکن معذور افراد کی بحالی کا کام وقت کی اشد ضرورت ہے۔ قصہ مختصر، معذور افراد کسی بھی معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں اور دیگر شہریوں کی طرح اپنی زندگی اچھے طریقے سے بسر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس طبقے کو ”خصوصی افراد” کا نام دیا گیا ہے تاکہ ان کا احساس محرومی ختم ہوسکے مگر صرف انہیں یہ نام دینا کافی نہیں ہے بلکہ ان کے لیے حقیقی معنوں میں خصوصی اقدامات زمانہ عصر کی حقیقی ضرورت ہے۔ معذور افراد معاشرے کا حسن ہیںاور یہ حسن ہمارے تعاون اور احساس کے بغیر ناممکن ہے۔