تحریر : وقار احمد اعوان آئندہ سال کے لئے قومی بجٹ کی ترتیب و تدوین کاعمل شروع ہو چکا ہوگا یا عنقریب شروع ہو جائے گا، عمدہ بجٹ کی دیگر خوبیوں کے علاوہ جو سب سے بڑی خوبی ہونی چاہیے وہ یہ کہ وطن عزیز کے ایک عام شہری کی مشکلات میں کمی ہو اور وہ اپنے مسائل کو دستیاب وسائل سے حل کرنے کی سکت رکھتا ہو۔ قومی بجٹ کی تیاری کے حوالے سے گزشتہ برسہا برس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مذکورہ بالاخوبی کی طرف عدم توجہی کا سلسلہ نظر آتا ہے۔
عام پاکستانی کی سوچ یہ ہے کہ وہ دیگر معاملات میںتوکمی بیشی گواراہ کرسکتاہے لیکن اہل خانہ کی صحت اوربچوں کی تعلیم کے حوالے سے وہ کسی سمجھوتے پر قائل نہیںہوسکتا۔نہایت ضروری ہے کہ آئندہ قومی بجٹ کی تدوین اورتشکیل میںصحت اورتعلیم کے شعبوں کودیگر تما م شعبوں پر ترجیح دی جائے۔اس حوالے گزشتہ پشاورکے مقامی ہال میں شوریٰ ہمدرد پاکستان کی پشاورشاخ کے زیراہتمام ایک پروقار تقریب کا انعقادکیاگیا،تقریب کا مقصد آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ بارے صوبائی حکومت کو عوامی ترجیحات دینا تھیں،تقریب کے مہمان خصوصی صوبائی وزیرخزانہ مظفرسید ایڈوکیٹ تھے جبکہ صدارت معروف کالم نگار ڈاکٹر صلاح الدین کے ذمہ تھی،تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیاگیا،تقریب سے اپنے خطاب میں معروف کالم نگار ڈاکٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ بجٹ میں عام آدمی کی زندگی کو سامنے رکھ کر ترجیحات ہونی چاہئیں ،تاکہ درکار اہداف کو حاصل کرنے میں آسانی دیکھنے کومل سکے۔ان کاکہناتھاکہ ہر سال کا بجٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتاہے،اس لئے وفاقی بشمول صوبائی حکومت کو عوام کی روزمرہ کی ضروریات کوضروربالضرور دیکھنا ہوگا۔اس کے بعد تقریب کے صدر نے سامعین کو بات کرنے کی اجازت دی ،اس موقع پر بات کرتے ہوئے معرو ف کالم نگار ڈاکٹر دوست محمدخان کاکہنا تھاکہ ہمارے ہاں بجٹ تو ہرسال بنتا ہے مگر وہ بجٹ اشرافیہ کا ہوتا ہے ناکہ عوامی۔بجٹ لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کامطلب ہے”پیسے کی رکھنے والا تھیلا۔خود دار قومیں ہمیشہ اپنا کھاتی ہیںمگر افسوس ہم بجٹ کے بننے سے پہلے ہی اپنے کھانے پینے کا سوچ لیتے ہیں۔ہمارے ہاں ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے بجٹ خسارے کا بنایا جاتاہے جس کا خمیازہ براہ راست عوام بھگتے ہیں۔
تقسیم ہند سے پہلے پنجاب سرزمین کو ”اناج کی سرزمین”کہا جاتا رہا،تاہم اتنی پیداواردینے والی زمین کے باوجود بھی ہم درآمد پر انحصارکرتے ہیں،ہمارے ہاں اچھی کوالٹی کا چاول،گندم،مکئی اوراسی طرح پھولوںکی کئی بہترین اقسام پائی جاتی ہیں،لیکن ہم درآمد شدہ اشیاء ضروریہ کو ہی پسند کرتے ہیں۔ان کاکہنا تھاکہ ہم اپنے وسائل کو درست استعمال نہیںجانتے اور شاید یہی کچھ وجہ ہو ہمارے ہرسال کے خسارے کے بجٹ کی۔ہمارے ہاںبیرونی امدادکو خوش آمدیدکہاجاتاہے ایسے میں ملکی ترقی چلے جاتی ہے تیل لینے۔ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ اتنے وسائل ہیںکہ اس سے 40کروڑ عوام کا بجٹ آسانی کے ساتھ بنایا جاسکتاہے اور جس میںبیرونی امدادکے لینے کی بھی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیںہوگی۔لیکن اس کام کے لئے ہمیں انتظامیہ،عدلیہ اورملک کو کرپشن سے پاک کرنا ہوگا۔تب جاکر ہم اپنے ملک کو ایک معیاری بجٹ دینے کے قابل ہو جائیں گے۔
Budget Ceremony
اللہ تعالیٰ کے کرم سے پاکستان وسطی ایشیائی ممالک سمیت دنیاکے ترقی یافتہ ممالک کو اشیائے ضروریہ برآمدکرتاہے،لیکن ہم اپنے بجٹ میں اپناکھانا رکھتے ہیں،اپنے وسائل کو سود پر دے دیتے ہیں،اور جس کانتیجہ یہ ہے کہ ہم قریباً75ارب ڈالر کے مقروض ہوچکے ہیں۔موجودہ حکومت ماضی کی حکومتوںسے قدرے بہتر ہے لیکن اب بھی مزید کام کرنے کی اشد ضرورت ہے،صوبہ خیبرپختونخوا حکومت نے گزشتہ سال 20فیصد تعلیم کے شعبہ کے لئے مختص کئے،مگر ان میں کتنے فیصد تعلیم پر خرچ ہوئے یہ گتھی ابھی نہیں سلجھی،اسی طرح صحت اورلاء اینڈ آرڈرکے لئے حکومت کی عدم توجہی بھی قابل تشویش امرہے ،ہرچند کہ تعلیم کے شعبہ کے لئے اتنی بڑی رقم مختص کرنا خو ش آئند اقدام ہے مگر اسے بھی ماہرین ”اونٹ کے منہ میں زیرا ”برابر مانتے ہیں۔جہاں حکومت عوام کو امن عامہ،صحت ،تعلیم جیسی سہولیات بجٹ میںنہیں دے سکتی وہاں معاشرہ میں امن وامان کی صورتحال برقراررکھنا جوئے شیر کے مترادف کہلاتاہے۔حکومت نے کبھی عام آدمی کا بجٹ نہیں بنایابلکہ زیادہ تر توجہ اشرافیہ پر ہی دے گئی،انہوںنے خاص طورسے وزراء کے عیش وآرام جیسی سہولیات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ حکومت نے حال ہی میں وزراء کی تنخواہوں میں 400فیصد اضافہ کرکے عوام دشمنی کا عملی ثبوت دیا ہے۔ اس حوالے حضرت امام ابوحنیفہ کا وہ مشہورقول کہ جو ”حکومت عوام کو امن عامہ،صحت ،تعلیم جیسی سہولیات نہیں دے سکتی اسے حکمرانی کا کوئی حق نہیں”۔اس موقع پر معروف کالم نگا ر وماہر تعلیم سلیم آفاقی کاکہنا تھاکہ حکومت 75ارب ڈالر کی ادائیگی سوئس بینکوں میںپڑی رقوم سے کرسکتی ہے۔
معاشرہ کو آگاہی فراہمی کرکے ہی بہترین بجٹ بنایا جاسکتاہے۔ان ماہرین سے رائے لینی چاہیے جو حالات پر مکمل عبور رکھتے ہوں،جنہیں عام آدمی کی زندگی سے مکمل آگاہی حاصل ہو،جو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی اتارچڑھائو سے اپنے آپ کو باخبر رکھتے ہوں،جنہیں غریب کے بچوں کا تعلیمی لیول پتا ہو،دوردراز کے رہائشی کی زندگی کو سامنے رکھنا ہوگا۔آخر میں تقریب سے اپنے خطاب میں مہمان خصوصی صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید ایڈوکیٹ کاکہنا تھاکہ صوبائی حکومت نے گزشتہ سال 505ارب کا بجٹ اسمبلی سے منظورکیا تھا جس میں 171ارب ترقیا تی امور کی انجام دہی کے لئے مختص ہیں،اسی طرح بجٹ میںزیادہ حصہ لوکل گورنمنٹ کا ہے۔کیونکہ بلدیاتی انتخاب کے بعد پارلیمانی لیڈران کا حصہ کم ہوکر رہ گیا ہے،انہوںنے تقریب میں اعلانیہ بلکہ چیلنج کرکے کہاکہ صوبائی حکومت نے اپنے چارسالہ دور حکومت میں ایک پائی کا بیرونی قرضہ نہیںلیا۔بجٹ غرباء کا یا امراء کے جواب میں صوبائی وزیر خزانہ کاکہنا تھاکہ حکومت ہرسال غریبوںکے لئے بجٹ بناتی ہے کیونکہ صوبہ خیبرپختونخواکی زیادہ تر آبادی اب بھی دیہاتوںمیں زندگی بسر کررہی ہے،اسی طرح غریبوںکی تعدادبھی زیادہ ہے ،اس لئے صوبائی حکومت نے اپنی حتی الوسعیٰ کوشش کی ہے کہ غریب کی زندگی کوسامنے رکھ کر بجٹ بنایا جائے اور ایسا گزشتہ چار سالوںسے ہورہاہے۔وزراء کی شاہ خرچیاں کے جواب میںصوبائی وزیر خزانہ کاکہنا تھاکہ وزراء کی شاہ خرچیاں کم کردی گئی ہیں،جس کا ثبوت میری خود کی ماہانہ تنخواہ ہے جوکہ 35000ماہوارہے۔اسی طرح پارلیمانی لیڈران کے لئے نئی گاڑیوںکی خرید بھی قریباً ختم کردی گئی ہے۔
منی یا ضمنی بجٹ کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟کے جواب میں صوبائی وزیر خزانہ کاکہنا تھاکہ منی یاضمنی بجٹ کی روایت کوئی اچھی روایت نہیں مگر اکثر اوقات سالانہ بجٹ سے ترقیاتی امورکی انجام دہی میں رکاوٹ کا سامنارہتاہے اسلئے صوبائی حکومت کو ضمنی یا منی بجٹ کی ضرورت پیش آتی ہے،لیکن ہماری حتی الوسعیٰ کوشش رہی ہے کہ منی بجٹ نہ ہو۔انہوںنے خاص طورسے غریبوںکے بجٹ پر بات کرتے ہوئے کہاکہ صوبائی حکومت نے حال ہی میں ایک یتیم خانے کا سالانہ وظیفہ 6کروڑسے بڑھا کر 14کروڑ کردیاہے۔جس سے عوامی دوست بجٹ کی سمجھ آجاتی ہے۔ان کامزیدکہناتھاکہ بجٹ میں غریب عوام کا خاص طورسے خیال رکھا جاتاہے کیونکہ صوبہ خیبرپختونخواکی عوام نے ہمیں تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا تھا سو ہم نے غریبوں کو تمام تر سہولیات دی ہیں۔آپ اشیائے ضروریہ کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں کہ کس سے ہمارے صوبہ میں دیگر صوبوںکے مقابلے میں مہنگائی کم ہے۔
Budget Ceremony
غریبوں کو گھر کی دہلیز پر اشیائے ضروریہ ارزاں نرخوںپر میسر آتی ہیں ،اسی طرح معیار کو بھی متاثرہونے سے بچانے کی صوبائی حکومت کوشش کرتی ہے۔صوبائی وزیر خزانہ کاکہناتھاکہ گزشتہ سال کے بجٹ میں غریب پاکستانی کے لئے بہت کچھ تھا،ہم نے تنخواہوںمیں خاطرخواہ حدتک اضافہ کیا،اسی طرح درآمدات کو کم کرکے برآمد ات پر زور دیا،آپ گزشتہ ادوار میں صوبائی حکومتوںکی کارکردگی پر نظر ثانی کرلیں کہ کس طرح انہوںنے لوٹ مارکا بازارگرم کررکھا تھا،کس طرح سے غریب عوام کو دونوںہاتھوںسے لوٹا گیااور کس طرح سے انہیں روزمرہ میں زندگی تنگ ہوتی محسوس ہوئی۔ہمارے چار سالہ بجٹ میں غریب عوام کیلئے بہت کچھ تھا۔اور جسے آپ آپ اب تک کا کامیاب بجٹ کہہ سکتے ہیں۔یوں تقریب کا اختتام ایک پرتکلف چائے پر ہوا۔