تحریر: سید انور محمود پیپلز پارٹی سندھ میں نو سال سے برسراقتدار ہے، پہلے دور میں آصف زرداری نے قائم علی شاہ کو صوبہ کا وزیراعلی بنایا، وہ صوبہ سندھ کے عوام کے لیے تو کچھ نہ کرسکے لیکن آصف زرداری اور انکے بچوں کی خدمت کرتے رہے، تھر میں بچے بھوک سے مررہے تھے اور قائم علی شاہ بلاول زرداری کی خدمت میں سندھ فیسٹیول کروارہے تھے۔ سندھ کے عوام کو جب اس بوڑھے وزیراعلی سے نجات ملی تو سندھ مسائل کا ڈھیر بن چکا تھا اور کراچی میں کوڑئے کا ڈھیر ہی ڈھیر تھا جو اب بھی ہے۔نئے آنے والے نوجوان وزیراعلی مراد علی شاہ نے بہت دعوےکیے لیکن پیپلز پارٹی کی پالیسی اور اس کے مالک سےوفاداری آڑئے آگئی، اس لیے پورئے سندھ اور خاصکر کراچی کے مسائل بڑھتے ہی چلے گئے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صوبہ سندھ کا دارلحکومت ہے، جس کی آبادی دو کروڑ نفوس سے زیادہ ہے اب ایک لاوارث شہر بن چکا ہے۔ آج یہ شہرزندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، ان بنیادی سہولیات میں پانی بھی شامل ہے۔شہر میں پانی چورٹینکر مافیا کو انتظامیہ اور واٹر بورڈ کی پوری پوری آشیرباد حاصل ہے۔ کراچی کے شہری پانی کا بل واٹر بورڈ کو ادا کرتے ہیں، لیکن پانی کے لیےانہیں ٹینکر مافیاکومنہ مانگے دام ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ہر علاقے میں گھروں میں پانی کے حصول کے لیے بورنگ کرائی گئی ہے جس پر ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا خرچہ آرہا ہے، لیکن دو کروڑ کی آبادی والے شہرکا یہ مسلہ اپنی جگہ موجود ہے۔
سابق ناظم کراچی مصطفی کمال اور ان کی پارٹی پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) نے 6 اپریل سے 23 اپریل تک عوامی حقوق کی جنگ کے لیے کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا تھا ۔ اس دھرنے میں چئیرمین پی ایس پی مصطفیٰ کمال اور صدر انیس قائم خانی نے مطالبہ کیا کہ کراچی کے نوجوانوں کو میرٹ پر روزگار، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ مصطفی کمال نے اپنے احتجاجی دھرنے کو اتوار 23 اپریل 2017 کو اپنے16 نکاتی مطالبات کے ساتھ ختم کردیا ۔ مصطفی کمال نے دھرنا ختم ہونے سے پہلے اپنی تقریر میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کا نام لیے بغیر کہا کہ 30 سال میں شہر کے حقوق کیلئے کسی نے آواز نہیں اٹھا ئی، اب ہم نے کراچی کے ایک ایک گھر کو جگا دیا ہے۔ مصطفیٰ کمال نے احتجاج کے دوسرے مرحلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم دوسرےمرحلے میں کراچی کے عوام کو آواز دینے جارہے ہیں، 14 مئی کو کراچی میں 10 لاکھ لوگوں کو جمع کرکے بھرپور احتجاج کریں گے (پاکستان کے سیاسی رہنماں سے یہ معلوم کرنا ضروری ہوگیا کہ دس لاکھ اور ملین وہ کسے کہتے ہیں، کیونکہ اب یا تو دس لاکھ کا مجمع ہوتا ہے یا پھر ملین مارچ۔۔ ۔مصنف کا سوال)۔
دھرنا ختم کرتے وقت 23 اپریل کو پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے اپنے 16 مطالبات کو منوانے کےلیے جن میں شہر میں پانی کی عدم فراہمی، واٹر سیوریج بورڈ کی خود مختاری، سڑکوں کی تعمیر، تعلیم کی بہتری، کے الیکٹرک کی اوور بلنگ، شہر کے ہسپتال، سڑکوں اور پارکوں کے میٹروپولیٹن کے حوالے کرنے پر مشتمل 16 مطالبات کے حق میں وزیر اعلیٰ ہاؤس تک مارچ کا اعلان کیا تھا۔ 14 مئی کو شاہراہ فیصل کراچی پر واقع ایف ٹی سی سینٹر سے اتوار کی شام کو اس مارچ نے چلنا شروع کیا لیکن پولیس نے عائشہ باوانی کالج کے قریب رکاوٹیں کھڑی کرکے انھیں روک دیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب، وقار مہدی اور دیگر رہنما مظاہرین سے مذاکرات کے لیے پہنچے لیکن مصطفیٰ کمال نے مطالبات تحریری طور پر تسلیم کرنے کے علاوہ زبانی یقین دہانی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔مصطفیٰ کمال کی قیادت میں کارکنوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو پولیس حکام نے انھیں بتایا کہ وہ ریڈ زون میں داخل نہیں ہوسکتےاس کے باوجود کارکن آگے بڑھے تو پولیس نے انھیں منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔پولیس نے مصطفیٰ کمال اور انکے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا بعد میں رات ایک بجے کے بعدکو ان کو چھوڑ دیا گیا۔ مصطفیٰ کمال نے پولیس حکام سے شکوہ بھی کیا کہ انکی ریلی پرامن تھی پھر اس پر تشدد کیوں ہوا۔
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کے مسائل سے لاتعلق سندھ حکومت پرامن مظاہرین پر تشدد پر اترآئی ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ پاک سرزمین پارٹی کے پرامن مظاہرین پر تشدد کیا گیا جب کہ پاکستان کا آئین اور قانون پرامن احتجاج اور مسائل کے حل کے لئے ہرقسم کے سیاسی اجتماع کی مکمل اجازت دیتا ہے۔ کیا منافق ہے یہ شخص، یہ حب علی نہیں بغض معاویہ ہے، اسے کراچی کے لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ نواز شریف کے یہ لاڈلے وزیر پیپلز پارٹی سے بغض نکال رہے ہیں۔ کیا ان کو اور نواز شریف کو کراچی کے مسائل کا پتہ نہیں، یہ منافق ہیں اور منافقت کی سیاست کرتے ہیں۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار کی منافقت کا یہ حال ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی کے متاثرین سے کوئی ہمدردی نہیں کی لیکن کراچی کے لوگوں سے پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہمدردی کی جارہی ہے۔ کراچی کے عوام کےلیے تو پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ(ن) دونوں ہی کراچی کے عوام کے دشمن ہیں۔
پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے دیگر جماعتوں کو بھی اس مارچ میں شرکت کی دعوت دی تھی تاہم کسی دوسری جماعت نے اس میں شرکت نہیں کی۔ کاش فاروق ستار تھوڑی دیر کےلیے اپنی انا سے باہر نکلتے تو پی پی حکومت اپنی بزدلی کا شاید ہی مظاہرہ کرتی، ایم کیو ایم اور پی ایس پی کو کراچی کے مسائل کےلیے ایک ہونا لازمی ہے۔دونوں کا اختلاف بانی ایم کیو ایم الطاف حسین سے تھا جن سے اب دونوں کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔لیکن مصطفی کمال اور انکے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد بہت سے ان کے مخالفوں نے مصطفی کمال اور انکی جماعت کے خلاف یہ پروپگنڈہ شروع کردیا کہ ان کے مارچ میں زیادہ لوگ نہیں تھے، سوشل میڈیا پر رات سے اب تک ایک تصویر گشت کرتی رہی جس میں ایک لال دائرہ لگاکر یہ بتایا گیا کہ بہت ہی کم لوگوں نے اس ملین مارچ میں شرکت کی تھی۔ بڑا مذاق بنایا جارہا ہے سابق ناظم مصطفی کمال کے دس لاکھ افراد کا۔۔۔۔ چلیں مان لیتے ہیں پی ایس پی کی لیڈر شپ کے علاوہ صرف چند ہزار لوگ تھے تو پھر پیپلز پارٹی کی حالت کیوں خراب تھی۔ پی ایس پی کے لوگوں پر تشدد ہونےکے بعد کیوں ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا اور پیپلز پارٹی کے وزیر ٹی وی چینل پر صفائیاں پیش کررہے تھے۔ جانے دیتے ان کم لوگوں کو لیکن پیپلز پارٹی کے بہادر کرپٹ لوگوں اب سوچو تم چند ہزار لوگوں سے اتنا ڈرتے ہو تو صرف چند ہزار اور آگئے ہوتے تو تمارا کیا ہوتا۔ مصطفی کمال چاہے کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن کوڑے کے ڈھیروں پر، پانی کے بغیر رہنے والوں کے لیے کم از کم کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔