نجانے کون تھا وہ دل جلہ شاعر جس نے کسی موقع پر یہ شعر کہا تھا۔
کشکول کے بدلے انہیں تاج ملے ہیں میں ہاتھ میں اک جام لئے جھوم رہا ہوں
کشکول توڑنے کا وعدہ کرنے والے اقتدار میں آنے کے 48 ویں دِن ہی اپنا وعدہ یا تو بھول گئے ہیں یا پھر ، ”وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔”کا مصداق نظر آ رہے ہیں۔
یہ اچھا ہوا وہ خفا ہو گیا چلو یونہی اک سلسلہ ہو گیا تمنا ہی وہ کیا جو پوری ہو وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا
”میں خودکشی تو کر لو گا مگر ایک روپے کا قرضہ نہیں لوں گا۔”فی الحال مفت مشورہ لیں اور کشکول کی مرمت شروع کردیں کیونکہ اگلے چند ماہ میں حکومت کو IMF کی کڑھی شرائط پر قرضے لینے پڑیں گے،اوریہ قرضے اُس سے کہیں زیادہ ہوں گے جو اس سے قبل دوسابقہ جمہوری حکومتیں (پی پی اور ن لیگ )لے چکی ہیں۔کنٹینر پر کھڑے ہو کر سلطان راہی اور شفقت چیمہ کی طرح ڈائیلاگ مارنے اور ملک چلانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔IMF ہو یا World Bank اِن تھڑوں کو جوتے کی نوک پر ترکی جیسا غیرت مند ملک تو رکھ سکتا ہے مگر پاکستان جیسے مسکین ملک کے بس کی بات نہیں کہ وہ IMF کو تین شرطیں طلاق دے کر فار غ دے۔نجانے ہمارے وزیراعظم صاحب کیا سوچ کر یہ کہتے ہیں کہ ‘ ‘ہم مدینہ جیسی ماڈل ریاست کا قیام کر رہے ہیں۔” جناب اس مسکین ریاست کو مسکین ہی رہنے دیں مدنی ریاست کا قیام آپ کے بس کی بات نہیں۔ہم بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کی حکومت میں اتنی سکت بھی نہیں کہ سابقہ حکومت کی طرح لولہ لنگڑانظام بھی چلا سکے ۔ باتیں ،بڑھکیں ،نعرے اور دعوے۔توبہ توبہ۔کشکول کبھی بھی نعروں اور دعوئوں سے نہیں ٹوٹا کرتے ۔ کشکول عملی کام کرنے سے ٹوٹتے ہیں جو تاحال موجودہ حکومت کرنے سے قاصر نظر آ رہی ہے۔
باقی یہ جو ” پہانڈے کلی کرالو۔” جیسے آوازے ہوتے ہیں اُن آوازوں سے جہیز تیار نہیں ہوا کرتے بس برتنوں پر محدودمدت کے لئے چمک سی آ جاتی ہے جس کی معیاد اگلے دس پندرہ دِن سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ایک ایسا ہی آوازہ سنا تھا کہ ” ہم وزیراعظم ہائوس کی جگہ یونیورسٹی بنائیں گے۔اس طرح کی باتیں سننے میں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیںلیکن خدا جانے کچھ ہی عرصے میں یہ کن کھائیوں میں جاگرتی ہیں کہ بعد میں اُن کی سسکی اور ہچکی تک کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی ۔ وزیراعظم ہائوس کی بھینسیں اور گاڑیاں فروخت کرنے کے بعد خوشی سے بغلیں بجائی گئیں اور فخر سے ان کارناموں کو ایسے بیان کیا جاتا ہے گویا پاکستان میں دیوارِ چین جیسا کوئی عجوبہ تعمیر کردیا گیا ہو یا جیسے اس حکومت نے مریخ پر آموں کا باغ لگا دیا ہو۔ان بھول بھلیوں کے ساتھ ساتھ عوام کوگورنر ہائوس گھماتے گھماتے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔یہ ایسا ہی لطیفہ ہے جیسے بچپن کے زمانے میں ہوا میں اُڑتی چڑیا دکھا کر ختنے کر دیئے جاتے تھے۔اِ س طرح کی شعبدہ بازیاں دکھا کر نجانے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سابقہ حکومت میں پیٹرول 65روپے فی لیٹر تھا اور آج 95 روپے تک جاپہنچا۔کیا وزیر خزانہ اسد عمر صاحب اپنا وعدہ بھول چکے ہیں کہ ” ہم اپنی حکومت پیٹرول کے دام 45روپے تک لائیں گے۔
ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
اسی طرح ڈالر کی بات کی جائے انڈیا میں 73کا ، افغانستان میں 75 ، بنگلہ دیش میں 85اور پاکستان میں پچھلی حکومت کی کرپشن کی وجہ سے 103 روپے کا تھا اور موجودہ حکومت کی ایمانداری اور وژن کی وجہ سے 137روپے کا۔ کہاں 103 روپے اور کہاں 137 روپے۔ڈالر کی اس اڑان سے دس فیصد مہنگائی کے امکانات ہیں۔ڈالر کی اس پرواز نے ایک دن میں9 سو ارب قرضہ بڑھا دیا۔مگر خیرصلٰی۔ اپنی لسیمیٹھی ہی ہوتی ہے خواہ کتنی ہی کھٹی کیوں نہ ہو۔پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ طور پر اس مہنگائی کے فضائل بیان کئے جاتے ہیں۔ان سب الجھنوں کا ایک ہی جواب دیا جاتا ہے کہ ابھی ابھی تو حکومت بنی ہے 70سالہ گند کو ختم کرنے کے لئے وقت تو درکار ہوتا ہے۔جناب آپ گند صاف کریں ناں کس نے منع کیا ،مگرمزید گندتو مت پھیلائیں۔ صفائی اچھی بات ہے مگر ذرا صفائی سے کریں۔
ایک طرف یہ بات کی جاتی ہے کہ چائے بسکٹ پر گزارہ کیا جائے دوسرے طرف KPK ہائوس میں ایک وقت کی چائے کا خرچہ لگ بھگ اڑھائی لاکھ روپے۔آئی جی پنجاب کے تبادلے کی کہانی انصاف اور قانون کی پاسداری کے چہرے پر لگا ایسا طمانچہ ہے جو تاریخ کے باب میں سیاہ قصے کے نام سے لکھا جائے گا اور دعویٰ یہ کہ ہم پولیس کو فری ہینڈ کریں گے اور اُن کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔کیا یہی وہ مثالی پولیس ہے جس کے چرچے دن رات ہم حکومت کی زبانی سنتے رہتے ہیں؟یہ تضادات کی صورتیں ایک عام شہری کے دماغ میں شک و شبہات ، اشکالات وتضادات اور غور و فکر کا ایک بازار گرم کر دیتی ہیں۔پھر ذہن میں ایک سوال انگڑایاں لینے لگتا ہے۔کیا یہی وہ نیا پاکستان ہے جس کا خواب ہم نے دیکھا تھا؟اگر اُس جاگتی آنکھوں دیکھے خواب کی تعبیر ایسی ہی ہونی ہے توہم” استغفراللہ ربی من کل ذنب” کا ورد کرتے ہوئے اپنے خواب سے تائب ہوتے ہیں۔جو حالات چل رہے ہیں ان کے تناظر میں اب تو اپنے اُس خواب سے خوف آنے لگا ہے۔احتساب احتساب کے ترانے گانے والے اپنی ہی بزم میں مستحقینِ احتساب کو جگہ دئیے بیٹھے ہیں۔لیکن کیا کیا جائے؟ ”ہمارا کتا ، کتا ہے ۔۔اورتمہارا کتا ، ٹونی۔
زمینی حقائق چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت نہ صرف پچھلی حکومت کے مقابلہ میں قرضے زیادہ لے گی بلکہ اُس جتنے ترقیاتی کام بھی نہیں کر پائے گی۔جس کے نتیجے میں موجودہ حکومت کی مقبولیت میں غیر معمولی کمی واقع ہو گی۔ہر ہر وہ دعویٰ اور وعدہ جھوٹا ثابت ہو رہا ہے جو عمران خان اور اُس کی کابینہ نے اقتدار میں آنے سے پہلے کیا تھا۔سوائے ایک دعوے کے ۔”میں اُن کو رلائوں گا۔” عمران خان نے یہ دعویٰ سچ کر دیکھایا۔