اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار اسد قیصر نے اسپیکر قومی اسمبلی کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔
سبکدوش ہونے والے اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جہاں خفیہ رائے شماری کے ذریعے پہلے مرحلے میں اسپیکر کا انتخاب کیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسد قیصر جبکہ اپوزیشن اتحاد کی جانب سے سید خورشید شاہ کو اسپیکر کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
اسد قیصر نے 176 اور خورشید شاہ نے 146 ووٹ حاصل کیے۔
پول کیے گئے 330 میں سے 322 ووٹ منظور جبکہ 8 مسترد ہوئے۔
پولنگ کے نتائج کا اعلان کرنے کے بعد سردار ایاز صادق نے اسد قیصر سے اسپیکر قومی اسمبلی کا حلف لیا۔
اسد قیصر کے حلف اٹھانے کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی نے شدید احتجاج کیا اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی تصاویر والے پوسٹرز اٹھا کر اسپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے۔
لیگی اراکین نے اس موقع پر ‘ووٹ کو عزت دو’ کے نعرے بھی لگائے۔
اسپیکر اسمبلی کے انتخاب کی غرض سے ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے اراکین کو حروف تہجی کے مطابق باری باری ان کے نام سے بلایا گیا۔
اسپیکر کے انتخاب کے لیے 2 پولنگ بوتھ بنائے گئے۔
ایک پولنگ بوتھ پر پیپلز پارٹی سے غلام مصطفیٰ شاہ اور تحریک انصاف کے عمران خٹک پولنگ ایجنٹ تھے جبکہ دوسرے پولنگ بوتھ پر پیپلز پارٹی کی شازیہ مری اور تحریک انصاف کے عمر ایوب پولنگ ایجنٹ تھے۔
اس سے قبل اسپیکر ایاز صادق نے اراکین کو بیلٹ باکس دکھانے کی ہدایت کی اور کہا کہ ‘اس میں ہاتھ لگا کر دیکھیں،کہیں کچھ پہلے سے تو نہیں’۔
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ‘بیلٹ باکس پر پین کے بجائے مہر کا استعمال کیا جائے’۔
جس پر اسپیکر نے کہا کہ ‘میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں،مہر اور پیڈ فراہم کیےجائیں گے’۔
ووٹنگ کے موقع پر کسی بھی رکن کو موبائل سے ووٹ کی تصویر بنانے کی اجازت نہیں تھی۔
جب تمام ووٹرز نے ووٹ ڈال دیا تو اسپیکر نے پولنگ ختم ہونے کا اعلان کیا اور امیدواروں اور پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی ہوئی۔
جس کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے نتیجے کا اعلان کیا اور اسد قیصر سے اسپیکر قومی اسمبلی کا حلف لیا۔
نو منتخب اسپیکر اسی طریقہ کار کے تحت ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کروائے گا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کے لیے قاسم سوری اور متحدہ اپوزیشن کی جانب سے سعد محمود کو نامزد کیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جب ووٹ ڈالنے پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا، جس پر پولنگ ایجنٹس کی رضامندی سے انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔
دوسری جانب عمران خان نے ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد اسپیکر سے ہاتھ بھی نہیں ملایا۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے اعتراض اٹھایا کہ ‘میرا شناختی کارڈ نہیں تھا، جس پر اسٹاف نےکہا کہ کارڈ لے آئیں یا دوبارہ اسمبلی کارڈ بنوا کر لائیں، جبکہ عمران خان نیازی کے پاس کارڈ نہیں تھا، لیکن انہیں اجازت دی گئی’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘تمام ارکان برابر ہیں، سب سے یکساں سلوک ہونا چاہیے’۔
جس پر اسپیکر ایاز صادق نے عبدالقادر پٹیل سے کہا کہ ‘اگر آپ بھی پوچھ لیتے تو آپ کو بھی اجازت دے دی جاتی، میرے لیے تمام ارکان برابر ہیں’۔
خیال رہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کا مرحلہ آئے گا۔
اس سلسلے میں کاغذات نامزدگی 16 اگست دن 2 بجے تک جمع ہوں گے جس کے بعد وزیراعظم کا انتخاب اگلے روز 17 اگست کو ہوگا۔
عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت پی ٹی آئی نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا ہے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف وزیراعظم کے مشترکہ امیدوار ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کی تاریخ 18 اگست مقرر کی گئی ہے۔