اسلام آباد (جیوڈیسک) سراج الحق نے کہا کہ حکومت اور فریقین کے درمیان مذاکرات دوبارہ بحال ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے مؤثر اقدام حکومت نے اٹھانا ہے کیونکہ دونوں جماعتیں حکومت سے مذاکرات چاہتی ہیں لہذا حکومت پہل کرے تو مذاکرات پھر سے شروع ہوجائیں گے جب کہ ہمارا مقصد بھی مذاکرات میں پیدا ہونے والے ڈیڈلاک کو ختم کرانا ہے جس کے لیے ماحول بہتر بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جرگے نے حکومت اور فریقین کو تجاویز دی ہیں جس پر مثبت رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے جب کہ ہم نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو تجاویز کا ڈرافٹ دکھا کر پوری تسلی کے ساتھ فریقین تک بھیجا ہے جس پر قوم کو بھی اطمینان دلارہے ہیں کہ اس بحران کا باعزت حل نکال لیں گے۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ غیر جمہوری رویوں سے جمہوریت اور آئین کو خطرہ ہوگا، سیاسی صورتحال سے معیشت بھی تباہ ہورہی ہے ایسے میں فریقین سے اپیل ہے کہ وہ اپنے موقف سے ایک ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں اور بحران حل کریں تاکہ تینوں فریق قوم کو سیلاب اور آئی ڈی پیز کے بحران سے نکالنے میں مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام میں خامیاں ہیں لیکن آئین پر عمل کرکے اسے درست کیا جاسکتا ہے، مذاکرات کی صورتحال سے اپوزیشن لیڈر سمیت دیگر پارلیمانی قائدین کو آگاہ کریں گے کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان میں مصر جیسی صورتحال پیدا ہو۔
پیپلز پارٹی کے رہنما رحمان ملک کا کہنا تھا کہ اگر دونوں جماعتوں کے کارکنان کی گرفتاریاں نہ ہوتیں تو معاملہ 4 سے 5 دن میں ختم ہوجاتا تاہم جو مذاکرات نہیں کرے گا اس کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جب کہ اگر مذاکرات سے مسئلہ حل نہ ہوا تو ایسا تصادم دیکھ رہے ہیں جس سے پاکستان کو نقصان ہوگا اس لیے فریقین ایک قدم پیچھے ہٹیں اور ایک دوسرے کو گلے لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ جرگے نے وزیراعلیٰ پنجاب کے استعفے سے ملی جلی تجویز دی ہے، جرگہ سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے جو کرتا رہے گا۔
دوسری جانب سیاسی جرگے نے وزیراعظم نواز شریف ،عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو خطوط بھیجے ہیں جس میں تینوں شخصیات کو موجودہ سیاسی بحران پر تجاویز دی گئی ہیں، ذرائع کے مطابق سیاسی جرگے نے عمران خان اور طاہرالقادری کو 11 تجاویز ارسال کی ہیں جن میں ان سے دھرنے ختم کرنے کی بھی اپیل کی گئی ہے جب کہ خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ لاہور میں پیش آنے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہو گی۔
سیاسی جرگہ وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ مسترد کرتا ہے جب کہ وزیراعظم بتائیں اگر دھاندلی ثابت ہوگئی تو وہ استعفیٰ دیں گے ۔ خط میں تجاویز قبول نہ ہونے پر فریقین کے درمیان مذاکرات کی صورتحال کو بھی سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔