تحریر : ساجد حسین شاہ جب اقوام زوال پذیر ہو تیں ہیں تو انحطاط کی وجو ہات میں یہ بھی شا مل ہو تا ہے کہ وہ اپنا اصل ہد ف چھوڑ کر بے مقصد با توں کی طرف تو جہ مر کوز کر لیتی ہیں اور اپنا بیش بہا قیمتی وقت کا ضیا ع کر تی ہیںکو ئی آ دمی اپنے ہنر سے آ گا ہ ہو یا نہ دوسرے کے کا موں میں مدا خلت کر کے یہ ثا بت کر نے کی کوشش کر تا ہے کہ وہ اس کے کام کو اچھے سے جا نتا ہے اس وقت ہما را ملک بہت سی آ فات سے زور آ زما ہے بلکے یو ں کہیے ہما را ملک مسلسل آ فا ت کے گھیرا ئو میں ہے ایک بلا ٹلتی نہیں کہ دوسری آن پہنچنے کو تیا ر ہو تی ہے اور بعض اوقات تو کئی آ فا ت ایک ساتھ آ ٹپکتی ہیں۔
16دسمبر کو پشاور آرمی پبلک سکول کے ہو لنا ک حا دثے نے پا کستان کا پس منظر تبدیل کر دیا ہر آ نکھ پر نم اور ہر دل دہشت گر دوں کے خلا ف پر عز م دکھا ئی دیا ہما ری عسکر ی اور سیا سی قیا دت ایک میز پر سر جو ڑ کر بیٹھ گئیںکہ چا ہے کچھ بھی ہو اس دہشت گردی کو پا کستان سے خیر آ با د کہہ کر ہی رہیں گے وہ منظر بہت دلکش تھا مگر زہن میں یہی سوال گر دش کر رہا تھا کہ سیاسی قیا دت خود ہی یکجاں ہو ئی یا پھر کسی دبا ئو نے انھیں ایسا کر نے پر مجبور کیا اور کتنے دن تک یہ اتحا د یوں ہی قا ئم رہے گا مگر یہ مطلب پر ست سیا ست دان اپنے مفا دات کی خا طر اس اتحا د کو نبھانے کے معا ملے میں بہت کمزور ثا بت ہو ئے۔
جب با ت فو جی عدا لتوں کی آ ئی تو آ رمی کے رو برو انکا ر کر نے کی جرات کو ئی نہ کر سکا مگر جب نئی ترا میم کا بل ایوا ن با لا میں پیش ہوا اس دن کئی سیا سی پنڈ توں نے غیر حا ظری کو منا سب جا نا انکی عددی تعداد بہت کم تھی اس لیے قرار داد بغیر ان کی شمولیت کے پر وان چڑ ھ گئی مگر انکا اس کا رخیر میں شا مل نہ ہونا ایک سوا لیہ نشا ن بن گیا اس سے قبل فو جی عدا لتوں کا کام محظ سیا سی قا ئدین کے خلاف انتقامی کا روائیاں کر نا تھا مگر پہلی با ر کسی جمہو ری حکو مت نے ایک جرات مندانہ قد م اٹھاتے ہو ئے فو جی عدا لتوں کے قیا م کی منظوری دی تا کہ دہشت گردی کے اس نا سور کواپنے وطن عزیز سے جڑ سے نکا ل کر پھینکا جا سکے ان عدا لتوں کے قیا م کی وجہ سے دہشت گر دی میں کس حد تک کمی آ ئی گی اس کا فیصلہ تو آ نے وا لا وقت ہی کرے گا۔
Terrorism
اس وقت ہما ری سیکو رٹی فو رسسز پر عز م ہیں اور دہشت گردو ں کو آ ڑے ہا تھوں لے رہی ہیں اور دوسری طر ف ایک با ر پھر سیا سی انتشا ر کی ہو ا چلتی ہو ئی معلوم ہو رہی ہے عمران خان صا حب نے حکو مت کو الٹی میٹم دیا ہے کہ اٹھارہ جنوری تک کمیشن قا ئم نہ کیا گیا تو پھر سڑ کوں پر آ جا ئیں گے اعلیٰ عدالتی کمیشن کا اعلان تو حکومت نے تب ہی کر لیا تھا جب خان صا حب اپنے لشکر کے ہمراہ لا ہور سے اسلام آ با د کی طرف روانہ ہو ئے تھے تو اب پھر یہ مطا لبہ کیوں در اصل بات کچھ یوں ہے کہ حکو مت عدا لتی کمیشن کے آ گے یہ معا ملہ کھولنا چا ہتی ہے جو عمران خان صا حب پچھلے دو سا ل سے ا لزا ما ت کی صورت میں فر ما رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن نے د ھا ندلی کی اور اسی دھاندلی کی بدولت وہ حکمران بنے لیکن تحر یک انصاف اس پر را ضی نہیں کیوں کہ وہ چا ہتے ہیں کہ جس طر ح کی ڈرا فٹنگ وہ کریںاسی طر ح کمیشن انکو ائری کر ے ظا ہر ہے حکومت کے لیے یہ بات کسی حا ل بھی قا بل قبول نہیںتحر یک انصاف رنگ بد لتی رہتی ہے۔
رنگ بد لنا ایک محا ورہ ہے اگر رنگ جسمانی طور پر بدلے تو اسے گر گٹ کی طر ح رنگ بدلنا بھی کہا جا سکتا ہے بحر حا ل عوام کے رنگ اس وقت فق ہیں کہ ایک با ر پھر ہمارے ملک کی سڑکوںپر وہی ڈرامہ رچا ئے جا نے کا امکا ن ہے سڑکوں کو بند کیا جا ئے گا ما رکیٹوں کو زبر دستی بند کروانے کے لیے تا جروں کے سا تھ ہنگا مہ آ را ئی بر پا ہو گی لا شیں خون وہی منظر ہماری آ نکھوں کو نم کر یں گے کیو نکہ جب بھی ہما رے ہاں ایسے احتجاج کیے جا تے ہیں تو کچھ ایسی ہی تصویر کشی ہو تی ہے حا لیہ دنوں میں فرانس میں دہشت گر دی کے خلاف ملین ما رچ ہوا جو پا کستان کی طر ح برائے نا م نہیں بلکہ حقیقتاملین ما رچ تھاسب لو گوں نے پر امن اپنا احتجا ج ریکا رڈ کر وا یا مر نے وا لوں کے سا تھ اظہا ر یکجہتی کا مظا ہرہ کیا اور پر امن منتشر ہو کر اپنی اپنی راہوں کی جا نب گا مزن ہو گئے اگر میں فلش بیک میں جا ئوںتو انہی خا کوں کے خلاف لا ہور میں لوگ بہت بڑی تعداد میں احتجاج کر نے کے لیے مال روڈ پر اکٹھے ہو ئے تھے تب منظر کیا تھا۔
احتجا ج تو ان گستا خا نہ خا کوں کے خلاف کر نا تھالیکن لوگوں نے دکا نوں کے شیشے توڑ کر دکا نوں میں گھس کر جو جی میں آ یا اٹھا لیا میکڈونلڈز میں گھس کر بر گر کھا لیے اے ٹی ایم مشینوں کو تو ڑنے کی کو شش کی عام شہریوں کی مو ٹر سا ئیکلوں اور گا ڑیوں کو نذر آ تش کیاگیا کچھ نو جوانون تو بنک میں دا خل ہو نے کی کو شش میں اپنی جان سے ہا تھ دھو بیٹھے یہ سب ہما رے ہاں معمول کا کام ہے چند ڈنڈا بردار افراد نہ صر ف ٹر یفک کو روک لیتے ہیں بلکے تو ڑ پھوڑ کے مزے سے خو ب لطف اندوز ہو تے ہیںخان صا حب کے اس دھا ند لی کے خلاف احتجاج میں کتنے لو گوں کا خون بہہ چکا ہے سیا سی انتشار کا یہ خو نی میدان مجھے مغل با دشا ہوں کی جنگ کی یا دلا تا ہے جب دونوں اطراف کے با شا ہ صا حبان خو د تو بلند اور محفو ظ مقا م پر ڈیرے جما لیتے لیکن انکی افواج میدانوں میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کر تیںپا کستانی کی سیا سی جنگ بھی کچھ اس سے مختلف نہیںمیدان میں قر با نیاں تو عام شہری دے رہے ہیں پر حکمرانی کے مز ے لینے والے یا ان مزوں کے خواہش مند تو صر ف انتشار کی آ گ جلا نے میں مصروف عمل ہیں سیا سی انتشار کی چکی میں پسنے والے عام پا کستانی شہری ہیں خواہ وہ ما ڈل ٹا ئون سا نحے کے متا ثر ین ہوں یا فیصل آ باد اور اسلا م آ با د کے خو نی میدان میں اپنی جا نیں گو انے وا لے ہوں ہما ری قوم ان سیا سی ہتھکنڈوں کے بھینٹ چڑ ھتی آ ئی اور چڑ ھتی رہے گی جب تک ان میں سو چنے اور سمجھنے کی صلا حیت اجاگر نہ ہو گی ان سیا سی رہنما ئوں کے دلوں میں عوام کے لیے محبت اور قدر تو اتنی ہے جس کا مظا ہرہ ملتان کے جلسے میں کیا گیا نیم مردہ حا لت میں لو گوں کو اسٹیج کی پر لا یا جا رہا تھا پر سیا ست کے ان پو جا ریوں نے اپنی گھسی پٹی تقریریں روکنا تو در کنار ایک جھلک ان معصو موں پر ڈا لنا بھی گوارا نہ کیا۔
یہ ملک ہم نے ایک جمہوریت پسند لیڈر کی زیرقیا دت میںحا صل کیا تھا اس لیے اس ملک کے سفر کا آ غا زبھی جمہو ریت سے ہوا مگر پچھلے سڑ سٹھ برس میں ہم اس جمہو ریت کو مظبو ط کر نے میں نا کام رہے ہیں کیونکہ خو د کو جمہو ریت پسند کہنے والی ایسی کا لی بھیڑیں اس سسٹم کا حصہ ہیں جو غیر جمہو ری قو توں کو ہمیشہ خو ش آ مدید کہتی ہیں ہمیں یہ با ت سمجھنا ہو گی اس سسٹم میں بہتری لا نے کے لیے سسٹم کا حصہ بننا بے حد ضرور ی ہے۔
Sajid Hussain Shah
تحریر : ساجد حسین شاہ ریاض، سعودی عرب engrsajidlesco@yahoo.com 00966592872631