تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا پرامن اجتجاج جمہوریت کا حسن ہوتا ہے ۔سیاسی اور زاتی پسند اور نا پسند سے بالا تر ہو کر ہمیں سوچنا ہوگا کہ بحثیت قوم ہم کدھر جا رہے ہیں ، پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کی چھیکا تانی کا یہ آخری اور فائنل رونڈ ہے۔ تحریک انصاف اور حکومت نے اپنی اپنی حکمت ِ عملی تیار کر لی ہے۔ جیسا کہ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے پولیس، انٹیلی جنس بیورو اور سپیشل برانچ کے حکام کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی تین کٹیگریز میں علیحدہ علیحدہ فہرستیں مرتب کرنے کا ٹاسک دیدیا اجلاس میں تحریک انصاف کے کارکنان کی فہرستیں مرتب کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اس حوالے سے تین کیٹگری کی لسٹیں تیارکرنے کے احکامات جاری ہوئے۔ کیٹگری اے میں مرکزی قیادت اور منتخب ارکان اسمبلی شامل ہیں۔ کیٹگری بی میں ڈویژنل اور ضلعی عہدیدار شامل ہیں جبکہ کیٹگری سی میں یونین کونسل کے چیئرمین، کونسلرز، سرگرم کارکنان،،سہولت کار،موبلائزر اور فنانسرز شامل ہیں۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسران کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ضلع کی سپیشل برانچ، آئی بی کے نمائندوں اور سیکورٹی برانچزکے ذریعے فہرستیں مرتب کریں۔
رانا مقبول کی سربراہی میں کمیٹی جس میں سیکرٹری داخلہ، آئی جی اور پراسیکیوٹرشامل ہیں، پی ٹی آئی کے رہنماؤں و کارکنوں کی گرفتاری یا نظری بندی کے حوالے سے سپیشل برانچ، آئی بی اور پولیس کی جانب سے تیار کی گئی فہرستوں کو حتمی شکل دے دی گی سیکرٹری داخلہ میجر (ر) اعظم سلیمان سوموار کو ابتدائی فہرستیں لیکر وزیر اعظم کے پاس پہنچیں گے جہاں وہ وزیراعظم کو پی ٹی آئی کے 2 نومبر کے دھرنے کو ناکام بنانے کے حوالے سے تیار کی گئی حکمت عملی کے بارے میں تفصیلی بریفنگ۔اجلاس میں سپیشل برانچ کو ایک اور ٹاسک یہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں سرگرم رہنماؤں،پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی، ٹکٹ ہولڈرز، یونین کونسل چیئرمینوں، کونسلرز، سہولت کاروں، موبلائزر اور فنانسرز کے علاوہ سرگرم کارکنوں کی2 نومبر کے دھرنے کی تیاری کے حوالے سے رپورٹس تیار کریں کہ ان کارکنان کی ”خفیہ میٹنگز” ہوئیں جہاں یہ منصوبہ بندی بنی کہ مسلح افراد اور ڈنڈا بردار تحریک انصاف کے قافلوں کا حصہ ہوں گے۔
ان رپورٹس کی بنیاد پر متعلقہ ضلع کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر(ڈی پی اوز)ز ایم پی او کے تحت ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن افسروں(ڈی سی اوز)کو احکامات جاری کرنے کیلئے کہیں گے، جن کی بنیادپر تحریک انصاف کے کارکنان کی گرفتاری یا نظر بندیاں عمل میں لائی جائیں گی۔ رانا ثناء اللہ اور رانا مقبول نے کہا کہ ڈی پی اوز سپیشل برانچ کی رپورٹس کو ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹرز سے بھی چیک کروائیں گے تاکہ کوئی قانونی سقم باقی نہ رہے دوسری جانب رانا ثناء اللہ اور رانا مقبول نے کہا کہ سپیشل برانچ کی رپورٹس کی قانونی حیثیت بھی ہوتی ہے اس لئے یہ فرضی / جھوٹی (پیڈنگ) رپورٹس ضرور تیار کی جائیں تاکہ عدالتوں میں حکومت کی سبکی نہ ہو۔اب حکومت نے ڈی سی اوز کو ہدایت کی کہ وہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے بارے میں نظربندی کے احکامات میں ایک ہی طرح کی سٹیریو ٹائپ عبارت لکھنے سے گریز کریں اور کوشش کی جائے کہ مختلف آرڈرز میں گراؤنڈز بھی مختلف ہوں۔ ڈی سی اوز کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ وہ اگر ڈی پی او کی طرف سے نظر بندی کے 20 مراسلے موصول ہوں تو اسی تاریخ میں 14 یا پندرہ آرڈر جاری کریں تاکہ یہ تاثر نہ ابھرے کہ انتظامی مشینری کوئی انتقامی کارروائی کررہی ہے۔
Model Town Incident
حکومتی حکمت عمل کے تحت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد سپاہ (پولیس فورس) بہت ڈی مورال ہوچکی ہے، کہ پولیس کا مورال بلند کریں اور انہیں عمران خان کیخلاف موٹیویٹ کریں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ حکومت کا اس میں کوئی ذاتی مفاد نہیں بلکہ یہ سب کچھ ملکی مفاد کے تحت کیا جارہا ہے، عمران خان غیر آئینی اقدامات کرکے ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔کیاحکومت سانحہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے ذمہ داروں کیساتھ معاونت نہیں کررہے؟ کیا مالی امداد نہیں کررہے؟ ذمہ دار پولیس افسروں کو بیرون ملک نہیں بھیجا؟ کیا اتنی زیادہ سٹیٹ مشینری استعمال کرنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی؟ ۔ حکومت نے سو گنا پولیس کی تنخواہیں بڑھائی ہیں، انہیں نوکریاں دی ہیں۔ پولیس کو یہ باور کرایا جائے کہ عمران خان جو کام کرنے جارہے ہیں وہ غیرآئینی ہے۔ عمران خان کے دھرنے کا نا کام کرنے کے لئے ہدایائت ! خالی کنٹینروں کو پکڑا جائے اور ان کو راستوں پر رکھ کر ان کو ریت یا مٹی سے بھرا جائے تاکہ اگر بڑی تعداد میں پولیس کی رکاوٹیں توڑ دھرنے میں شامل ہونے والے افراد پہنچ بھی جائیں تو وزنی ہونے کی بناء ان کو راست سے نہ ہٹا سکیں۔
دو نومبر کے قافلوں کی کم سے کم کوریج اور پولیس کی پی ٹی آئی کے رہنماؤں و کارکنوں سے جھڑپوں کی کوریج کو روکنے کیلئے رانا مقبول کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری اطلاعات، آئی جی اور ڈی جی پی آر بھی شامل ہونگے۔ PTI کے عوامی سمندر کو روکنے کے لئے حکومتی مشنری کا استعمال موقع محل کے مطابق کرنے کی حکمت عملی تیار زرائع کے مطابق نظر بندیوں اور گرفتاریوں کے بارے میں وفاقی حکومت حتمی فیصلہ کرے گی کہ کب نظربندیوں اور گرفتاریوں کا عمل شروع کرنے ہے تاہم پولیس اور انتظامیہ اس حوالے تیار رہی گی اور حکم ملتے ہی عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔رانا ثناء اللہ نے پولیس حکام کو ہدایت کی کہ گرفتار یا نظر بند رہنماؤں کو اس ضلع میں بند نہ کیا جائے جہاں کے وہ رہائشی ہیں بلکہ ان کو دوردراز کے اضلاع تھانوں اور جیلوں میں رکھا جائے۔
رانا ثناء اللہ نے راولپنڈی ڈویژن، اسلام آباد اور خیبر پختونخواہ سے دھرنے میں شرکت کرنیوالوں کو روکنے کی ذمہ داری وفاقی وزیر داخلہ کی لگا دی ہیں ۔جڑواں شہروں کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کے بارے میں پولیس،انتظامیہ، سپیشل برانچ اور آئی بی کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ان پر نظررکھیں کہ کہیں ان میں دھرنے میں شرکت کرنیوالے تو پہلے سے آکررہائش پذیز نہیں ہوگئے، اس حوالے گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹل مالکان کو تنبیہ کی جائے کہ وہ ایسے لوگوں کو ٹھہرائیں جو معمول کے وزٹرز ہیں۔پولیس اور سپیشل برانچ کوٹاسک مل گیا ہے کہ افغانیوں اورافغان مہاجرین کا بھی دھرنے میں شمولیت کا خدشہ ہے اس لئے افغان آبادیوں اور مہاجرین پرنہ صرف کڑی نظر رکھی جائے بلکہ انکے خلاف سرچ آپریشن بھی کیا جائے۔ حکومتی کمیٹی میڈیا اور عوام کو مس لیڈکرنے کیلئے بار بار میڈیا پر آکر یہ تاثر دینے کی کوشش کرے گی کہ حکومت پی ٹی آئی کی تقریباً تمام شرائط ماننے کو تیار ہے اور وزیر اعظم اور انکی فیملی بھی خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کی پہلے بھی پیشکش کرچکے ہیں، اب بھی تیار ہیں لہذا پی ٹی آئی کے دو نومبر کے دھرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ تحریک انصاف کے دھرنے میں اگر مہنگائی ، اردو قومی زبان ، پاکستان کا ایک جیسا سلیبس اور سب سے بڑھ کر کشمیر کا مسلہ ئشامل ہوتا تو تحریک انصاف کے علاوہ عام لوگ بھی دھرنا کا حصہ ہوتے اور حکومت بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی۔