تحریر : پروفیسر رفعت مظہر خواجہ سعد رفیق کے حلقہ 125 (لاہور) کے الیکشن ٹربیونل نے انتخاب کو کالعدم قراردے کر60 دنوں میں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دے دیا۔ الیکشن ٹربیونل کافیصلہ آتے ہی سونامیوںکے ”تنِ مُردہ” میںگویا جان پڑگئی ۔وہ رات گئے تک بھنگڑے ڈالتے اورمٹھائیاں تقسیم کرتے نظرآئے۔ہمیںایک سونامیے نے کہا ”اَج میرانچنے نوںجی کردا” تو ہم نے بھی مسکراکے کہاکہ یہ تواُس کاحق ہے کیونکہ یہ پہلی دفعہ ہے جب سونامیوںنے وقتی طورپر ہی سہی لیکن لیگیوںکو ”نُکرے” لگایاتو ۔تحریکِ انصاف کی پوری قیادت بھی سڑکوںپرجھوم رہی ہے۔میاںمحمودالرشید ، عبد العلیم خاںاوراعجازچودھری خوشی سے نہال اورچہروںکی چمک پہلے سے کئی گنازیادہ ۔ وجہ یہ کہ کنٹونمنٹ بورڈکے الیکشن میںتحریکِ انصاف کی بُری ہزیمت کے بعداِن اصحاب کی توشامت آئی ہوئی تھی اوروہ ہرکس وناکس کی تنقیدکا نشانہ ۔ اب خواجہ سعدرفیق کاانتخاب کالعدم قراردیئے جانے کے بعدوہ ایک دفعہ پھر ”ٹائیگر”بن گئے۔ شیریں مزاری کہتی ہیں”دھاندلی کے چہرے سے نقاب سرکنے لگا”۔ کپتان صاحب کافرمان” اب دھاندلی پرشک نہیںہونا چاہیے ۔خواجہ سعدرفیق دو سال سے پارلیمنٹ میں”اجنبی” تھے ،
وزیرِاعظم بھی جلد”اجنبی” ہوجائیں گے ۔نوازلیگ کب تک عوام کوبیوقوف بنائے گی۔ 2015ء الیکشن کاسال ہے ”۔ اِدھرسونامیے جی بھرکے خوشیاںمنا رہے ہیںاور اُدھرمُنہ بسورتے لیگئے کہتے ہیںکہ اگرصرف ایک حلقے کے انتخابات کالعدم قراردیئے جانے کوبنیاد بناکر عمران خاںصاحب یہ سمجھتے ہیںکہ جوڈیشل کمیشن کافیصلہ اُن کے حق میںآ جائے گااور وہ 2015ء میںالیکشن کے بعددو تہائی اکثریت سے جیت کرایوانِ وزیرِاعظم میںجاپہنچیں گے تویہ محض ایسے ہی ہے جیسے”بلّی کوچھیچھڑوں کے خواب ” الیکشن ٹربیونل نے خواجہ سعدرفیق کے خلاف فیصلہ تودے دیا ،ٹربیونل کافیصلہ سَرآنکھوں پر لیکن اِس فیصلے نے بہت سے سوالات کوبھی جنم دے دیا، جس پرنوازلیگ کی طرف سے تحفظات کا اظہارکیا جارہاہے ۔حلقہ 125 سے ہارنے والے امیدوار حامدخاں کہتے ہیں” کمیشن کے سامنے دھاندلی کے ثبوت پیش کیے تبھی تواُس نے الیکشن کالعدم قراردیا ”۔لیکن الیکشن ٹربیونل کے فیصلے میںلکھا گیاہے”امیدواروں کادھاندلی میںملوث ہوناثابت نہیںہوا”۔
عجیب بات ہے کہ ایک طرف توالیکشن ٹربیونل یہ تسلیم کرتاہے کہ انتخابی عملے سے غفلت ہوئی جبکہ دوسری طرف خواجہ سعدرفیق اورمیاںنصیر احمد کودو سال کی تنخواہیںاور مراعات واپس کرنے کاحکم بھی جاری کرتاہے ۔گویا”ڈِگا کھوتے توں ،کَن مروڑے کمہاری دے” ۔اگرغفلت انتخابی عملے سے ہوئی توسزا خواجہ سعدرفیق اورمیاں نصیراحمد کوکیوں؟۔ الیکشن ٹربیونل نے 265 پولنگ سٹیشن میںسے صرف7 پولنگ سٹیشنزکے تھیلے نادراکو تصدیق کے لیے بھجوائے اور نادراکی رپورٹ کے مطابق 125 ووٹ ایسے تھے جہاںایک ایک ووٹرنے چھ ،چھ بارووٹ ڈالا۔ الیکشن ٹربیونل نے اسی کوبنیاد بناکر الیکشن کالعدم قراردیتے ہوئے دوبارہ انتخاب کاحکم دے دیا۔سوال یہ ہے کہ کیا125 جعلی ووٹوںکو بنیادبنا کر حلقے کے تین لاکھ سے زائدووٹرز کوسزا کیسے دی جاسکتی ہے؟۔ خواجہ سعدرفیق توحامدخاں سے لگ بھگ 40 ہزارووٹوں کے فرق سے جیتے تھے ،کیا محض 125 ووٹوںکو بنیاد بناکر اُنہیںگھر بھیجاجا سکتاہے؟۔
Election
سبھی جانتے ہیںکہ ایسی چھوٹی موٹی دھاندلی توہر جگہ ہوتی ہے ،آپ خواہ کسی بھی حلقے کے پولنگ سٹیشن کاجائزہ لے لیں ،وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ اِس قسم کی دھاندلی ہرجگہ نظرآ جائے گی جوبَدانتظامی کاشاخسانہ ہوتی ہے ۔ہمیںیہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ پولنگ سٹیشن پرتعینات انتخابی عملے کی مناسب ٹریننگ نہ ہونے کی بناپر ہی ایسی بدانتظامی سامنے آتی ہے ۔مجھے دورانِ سروس تین ،چاربار بطور پریذائیڈنگ آفیسر کام کرنے کاموقع ملااِس لیے وثوق سے کہہ سکتی ہوںکہ انتخابی عملے کی ٹریننگ کاکسی بھی الیکشن میںمناسب انتظام نہیںکیا جاتا۔ انتخابی عملے کوچند گھنٹوںکے لیے ٹریننگ کی خاطربلایا ضرورجاتا ہے لیکن اُنہیںصرف ”انتخابی کتابچہ ہدایات”دے کرٹرخا دیاجاتا ہے۔ آج تحریکِ انصاف خوشیاںمنا رہی ہے لیکن شایدکسی بھی ”سونامیے”میں اتنی اخلاقی جرأت نہیںکہ وہ قوم کویہ بتلاسکے کہ تحریکِ انصاف نے الیکشن 2013ء کے بعد59 اپیلیں دائرکیں
جن میںسے لَگ بھگ پچاس اپیلوںکا فیصلہ ہوچکااورکسی ایک اپیل کافیصلہ بھی تحریکِ انصاف کے حق میںنہیں آیا ۔حلقہ 125 کافیصلہ وہ واحدفیصلہ ہے جوتحریک کے حق میںآیاجس پربھنگڑے ڈالے اورمٹھائیاں تقسیم کی جارہی ہیں۔اِس فیصلے کے خلاف اگر نوازلیگ نے سپریم کورٹ میںاپیل دائرکر دی توامکانِ غالب ہے کہ فیصلہ خواجہ سعدرفیق کے حق میںہی آئے گاکیونکہ یہ فیصلہ خامیوںسے مبرا نہیںلیکن ”جذباتی”خواجہ سعدرفیق توایک دفعہ پھر”لنگوٹ” کَس کے انتخابی اکھاڑے میںاترنے کو تیارہے ۔یہ وہی حلقہ ہے جہاںسے تحریکِ انصاف تازہ تازہ کنٹونمنٹ بورڈکے انتخاب میںہزیمت اٹھاچکی ہے اورفوج کی نگرانی میںہونے کی وجہ سے تحریکِ انصاف نے اِن انتخابات کوقبول بھی کرلیا۔ الیکشن ٹربیونل نے 60 دنوںمیں دوبارہ انتخاب کاحکم دیاہے لیکن خاںصاحب کہتے ہیںکہ جتنی دیرتک اِس حلقے کے” آراوز” کے خلاف تادیبی کارروائی نہیںکی جاتی ،اتنی دیرتک الیکشن نہ کروایاجائے ۔ یہ محض تاخیری حربہ ہے کیونکہ خاںصاحب خوب جانتے ہیںکہ اگرکراچی کے حلقہ 246 کی طرح سی سی ٹی وی کیمروںاور رینجرزکی کڑی نگرانی میں بھی حلقہ 125 کاانتخاب کروایاگیا تونتیجہ وہی ہوگاجو پہلے تھا۔
محترم خاںصاحب نے ایک دفعہ پھر2015ء کوالیکشن کاسال قراردے دیاہے ۔اگر خاںصاحب کوحلقہ 125 کے الیکشن ٹربیونل کی طرح باقی ٹربیونلزپر اعتمادہے اوریہ ٹربیونل اُن کے ”معیار”پر پورے اترتے ہیںتوپھر 2015ء میںتو الیکشن ہوتے نظرنہیں آتے کیونکہ اِن ٹربیونلزنے کل 387 انتخابی عذرداریوںمیں سے 355 کے فیصلے سنادیئے، کچھ لوگ نااہل بھی قرارپائے لیکن کسی ایک کی بنیادبھی ”منظم دھاندلی” نہیںتھی ۔ویسے توتحریکِ انصاف نے تحقیقاتی کمیشن میںمنظم دھاندلی کاکوئی ایک بھی قابلِ قبول ثبوت پیش نہیںکیا لیکن اگرجوڈیشل کمیشن صرف الیکشن ٹربیونل کے فیصلوںکو ہی مدِنظر رکھتے ہوئے کسی نتیجے پرپہنچنے کی کوشش کرے توپھربھی منظم دھاندلی توثابت نہیںہوسکتی اور اگر منظم دھاندلی نہیںتو پھر 2015ء الیکشن کاسال بھی نہیں۔ اگرتحریکِ انصاف یہ سمجھتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن محض خواجہ سعدرفیق صاحب کے حلقے کومدِنظر رکھتے ہوئے کسی نتیجے پرپہنچے گااور باقی تمام ٹربیونلزکے فیصلوںسے صرفِ نظرکرے گاتو یہ اُس کی بھول ہے اور”دِل کے خوش رکھنے کوغالب یہ خیال اچھّاہے”۔جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میںقائم ہے اورتحقیق کہ اُس نے کسی بھی نتیجے پرپہنچنے کے لیے اپنی راہیںخود متعین کرنی ہیں، کسی فیصلے کومدّ ِنظر رکھ کے نہیں۔