تحریر: پروفیسر رفعت مظہر آج 24 اپریل کو ہمارا یومِ تاسیس ہے ۔اِس دِن کی مناسبت سے ہم نے پہلے ہی بھرپور تیاریاں کر رکھی ہیں البتہ میرے میاں اِن تیاریوں کو دیکھ کر جلتے کڑھتے اور منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے رہتے تھے۔ ایک دوبار انہوں نے ہمیں ”جَلی کَٹی” سنانے کی کوشش کی توہم نے بھی تنگ آکر ”پنجابی کَڑے” کا سُنادیا جس پر وہ تلملا کر رہ گئے لیکن مُنہ سے کچھ بولے نہ ہاتھ سے۔ ویسے تو ہم ”سونامیے” ہیں لیکن خادمِ اعلیٰ نے یہ جو پنجاب اسمبلی سے حقوقِ خواتین کابِل منظور کروایا ہے اِس کی وجہ سے ہم دِل سے اُن کے قائل ہو گئے ہیں۔ ”منہ زبانی” اِس لیے نہیں کہتے کہ ہم ٹھہرے پَکّے سونامیے ،البتہ ”اَندر واَندری” انہیں دُعائیں ضرور دیتے رہتے ہیں ۔یہ ہمارے ”مولاناؤں” کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے کہ لَٹھ لے کر پنجاب حکومت کے پیچھے دوڑ اُٹھے ہیں۔ شاید یہ کسی کو سکھ چین سے جیتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔
ہاں ! تو بات ہو رہی تھی یومِ تاسیس کی جس میں ہماری ”سونامی” بڑے عرصے بعد جلوہ گر ہورہی ہے اور وہ جو کہتے تھے کہ سونامی گَٹر میں بہہ گئی ،ان کو ”لَگ پتہ جائے گا”۔ اب کی بار ہم یومِ تاسیس بڑے تزک واحتشام سے مناا رہے ہیں کیونکہ ہماری کامیابیوں کی داستان طویل ہے اورہمیں یومِ تاسیس دھوم دھڑکے سے منانے کاپورا حق ۔ اب بھنگڑے بھی ہوں گے ،ڈانس بھی ،میوزیکل شو بھی ہوگا اور آتش بازی بھی ۔گویا یومِ تاسیس منانے والوں کی تفریح طبع کا بھرپور انتظام ہوگا ۔کچھ لوگوں کو دُکھ تھا کہ 2014ء کے دھرنے کے دوران وہ ہمارے پرویز خٹک المعروف” تیلی پہلوان” کا ڈانس دیکھنے سے محروم رہ گئے ۔اِس لیے اب اِس امرکا خصوصی انتظام کیا گیا ہے کہ خٹک صاحب سارا وقت تھرکتے رہیں ۔ڈی جے بَٹ تو احسان نا سپاس نکلا اور احمق بھی۔
بھلا تھوڑے سے پیسوں پر کوئی جھگڑا کرتا ہے ،اور وہ بھی مستقبل کے وزیرِ اعظم سے۔اب یقیناََ ڈی جے تو ہوگا لیکن ”بَٹ” نہیں ۔ دروغ بَرگردنِ راوی ، کسی نے کورکمیٹی میں یہ ارسطوانہ تجویز پیش کی کہ پرویز مشرف طبلہ سارنگی لے کر سٹیج پر بیٹھ رہیں تواتنا ہی کافی ہے لیکن یہ تجویز مسترد کر دی گئی ۔وجہ یہ تھی کہ پرویز مشرف تو ایسے دُم دباکر بھاگے کہ پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی زحمت تک نہیںکی۔وہ بھلا واپس کیوں آئیں گے ۔ اگر بالفرض وہ آ بھی گئے تو اُن کاکیا اعتبار کہ وہاں یہ اعلان کر دیںکہ اُن کی چاہتوں کے اسیر زیادہ ہیں اِس لیے تحریکِ انصاف کی قیادت اُن کے سپرد کی جائے ، تو ایک نیا”پھڈا” پَڑ جائے گا ۔ اپنے مطالبے پر زور دینے کے لیے وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی کو اُن کی مقبولیت پر یقین نہیں تو سوشل میڈیا پر ووٹنگ کرواکر دیکھ لے ، کھُل کر سامنے آجائے گاکہ ” کِس کاپلہ بھاری ہے”۔
Jahangir Tareen
اس دفعہ ”تنبو ، قناتوں” کا انتظام بھی بطریقِ احسن کیا گیا ہے ۔ شنید ہے کہ جہانگیر ترین نے یہ ساری ذمہ داری اُٹھا کر تنبو ، قناتیں اور کرسیاں کرائے پرلینے کی بجائے خرید ہی لی ہیں تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئیں ۔ یقیناََ اُنہوںنے خورشید محمود قصوری سے مشورہ کرکے کرسیوں کی حفاظت کا انتظام بھی کر لیا ہوگا ۔ ویسے بھی اگر تقریب کے بعد کوئی کرسیاں اُٹھا کرلے بھی جائے تو ترین صاحب کو کیا فرق پڑتا ہے کہ” پیسہ بہت ہے”۔ ہمارے انتظام و انصرام کے دوران ہی سپہ سالار نے ”کھڑاک” کرتے ہوئے احتساب میں پہل کرڈالی ۔اُنہوںنے کرپشن کے الزام میں اپنے ہی ادارے کے کئی ”جرنیل ،کرنیل” فارغ کرکے ”کرپشن مکاؤ” مہم کا افتتاح کردیا ۔ جب بھی کرپشن کی بات ہوتی تھی توکئی آوازیں اُٹھتی تھیں کہ آخر عدلیہ اور فوج ”مقدس گائے” کیوںہیں؟۔ اب سپہ سالار کے عوامی اُمنگوں کے عین مطابق اِس لائقِ تحسین اقدام کے بعد یہ اعتراض بھی دفن ہوا۔اِس لیے اب ” تَردامنی” کو چھپانا ممکن نظر نہیں آتا ، اِس لیے شایدہم بھی اپنی زندگی میں ہی کرپشن کے مگرمچھوں کا انجام دیکھ سکیں ۔ بظاہر تو یہ سہانا سپنا ہی دکھائی دیتاہے لیکن کبھی کبھی سپنے بھی سچ ہوجایا کرتے ہیں۔
سپہ سالار کے اِس اقدام کے ساتھ ہی وزیرِاعظم صاحب نے پانامہ لیکس پر قوم سے دوسری بار خطاب کرنا ضروری سمجھا ۔ اُنہوں نے اپنی ذات اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو پانامہ لیکس پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کے لیے خط لکھ رہے ہیں ۔ اُن کے اِس اعلان کے ساتھ ہی تحریکِ انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا یہ مطالبہ بھی پورا ہوگیا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے خلاف ”گھناؤنی” سازش ہے ۔پہلے بھی 2014ء میں ہمارے ساتھ ایساہی ” ہَتھ” کرنے کی کوشش کی گئی اور عین اُس وقت جب ہماری ”سونامی” کمر کَس کر ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنے کے لیے تیار بیٹھی تھی تو وزیرِاعظم نے صرف دو دِن پہلے قوم سے خطاب کرتے ہوئے تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کر دیا۔
اُس وقت چونکہ ہمیں یقین دلادیا گیا تھا کہ اِدھر ہم ڈی چوک پہنچے ، اُدھر امپائر کی انگلی کھڑی ہوئی ۔ اِس لیے ہم نے وزیرِاعظم کے اعلان کو پَرکاہ برابر حیثیت نہ دیتے ہوئے ڈی چوک پہنچ کرہی دَم لیا ۔ ڈی چوک میں 126 روز دھرنے کے دوران بیٹھے گنگناتے رہے ”آ جا دلبرا کہ تیرا انتظار ہے ” لیکن امپائر کی انگلی پتہ نہیں کہاں کھو گئی ۔ مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں کے جَلو میں مجبوراََ ہمیں اپنا دھرنا ختم کرنا پڑا ۔ سانحہ اے پی ایس پشاور تو محض بہانہ تھا ، حقیقت یہ کہ جب کنٹینر پر کھڑے لوگوں سے بھی کم لوگ دھرنے پر بیٹھے نظر آنے لگے تو بعض شَرپسند نیوزچینلز کنٹینر پر کھڑے اور دھرنے پر بیٹھے ”خواتین وحضرات” کاموازنہ کرکے ہمیں چڑانے لگے ۔اِس لیے ہم نے ”نیویں نیویں” ہوکر دھرنا ختم کرنے میںہی عافیت جانی۔
imran khan
اب ایک دفعہ پھر وزیرِاعظم نے وہی ”گھِسی پِٹی” چال چلتے ہوئے ہمارے یومِ تاسیس سے صرف دو دِن پہلے سپریم کورٹ کے ذریعے تحقیقاتی کمیشن کااعلان کرکے ہمارا مورال ڈاؤن کرنے کی کوشش کی ہے ۔اسی لیے ہمارے کپتان صاحب نے کہہ دیا” معاملہ ٹھنڈا کرنے کے لیے خط لکھنے کاکہا گیا ہے ”۔ لیکن ہم سونامیے بھلا معاملہ ٹھنڈاہونے دیتے ہیں؟۔ یہاںتو معاملہ پانامہ لیکس کاہے ، اگر کوئی معاملہ نہ بھی ہو تو پھر بھی ہم ماحول کو ”گرماگرم” رکھنے کے عادی ہیں کیونکہ ہمارے کپتان صاحب کو یہ سبق اَزبَر ہے کہ
جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
کہے دیتے ہیں کہ ہم صرف لہو گرم رکھنے کے لیے باہر نکلتے ہیں اور نکلتے رہیں گے اِس لیے ہماری سونامی اسلام آباد ”جاوے ای جاوے”۔ ویسے محترم سپہ سالار نے بھی ہمارے ساتھ اچھّا نہیںکیا ۔ ہم تو اُن کی انگلی کھڑی ہونے کے منتظر تھے لیکن وہ احتساب ، احتساب کھیلنے لگے ۔ اگر وہ عین موقعے پر جرنیلوں ، کرنیلوں کو فارغ نہ کرتے تو وزیرِاعظم بھی بھاگم بھاگ قوم سے خطاب نہ کرتے اور نہ ہی تحقیقاتی کمیشن کا اعلان ہوتا۔ لیکن سپہ سالارنے تو ”رسمِ احتساب” ڈال کر ہمارے پروگرام کا ”سَوا ستیاناس ” مار دیا۔