۔،۔دوست نما دشمن ۔،۔

PTI

PTI

تحریر: طارق حسین بٹ۔ چیرمین پیپلز ادبی فورم
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کی علامت بنی ہوئی ہے لہذا اس نے عوام کے اذہان میں نئے پاکستان کے قیام کے جذبوں کے جو بینج بوئے ہیں ان کا تناور درخت بننا یقینی ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص گندم کاشت کرے اور اس سے کپاس کا پودا نکل آئے۔ جیسا بوئو گئے ویسا کاٹو گے ایک حقیقت اورہم سب کا اس پر ایمان ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ عمراں خان نئے پاکستان کے بیج تو بوئیں اور ان سے نئے پاکسان کا ظہور نہ ہو؟ نیا پاکستان بننا ہے اور اسے کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ یہ ہر پاکستانی کی دلی حواہش ہے اور جب کوئی خواہش جمہور کی آواز بن جائے تو ویسا ہو کر رہتا ہے۔تخلیقِ پا کستان سے چند سال قبل کسے یقین تھا کہ پاکستان کا قیام ایک دن حقیقت بن جائیگا لیکن ایساہو اکیونکہ مسلمانوں کی اکثریت اس تصور پر متفق تھی کہ ایک نئی اسلامی ریاست کی تخلیق اس خطے میں اسلام کی بقا کیلئے ضروری ہے۔ عمران خان نے موجودہ حکومت ،اس کے اندازِ حکمرانی،کرپشن،نا انصافی اورانتخابی دھاندلیوں کے خلاف ١٤ اگست ٢٠١٤ کو اسلام آباد کی جانب لانگ مار چ کا آغازکیا۔

کئی مہینوں تک جاری رہنے والے دھرنے نے عمران خان کی مقبولیت میں نئے رنگ بھرے اور وہ عوام کی امیدوں کی علامت بن کر سامنے آئے۔انھوں نے عوام میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے اسمبلیوں سے استعفے بھی دے دئے اور بے پناہ دبائو کے باوجود اسمبلیوں میں واپس جانے اور استعفے واپس لینے سے انکارکر دیا ۔ جمہوریت میں مستعفی ہونا غیر معمولی بات ہوتی ہے کیونکہ استعفوں کے اندر جمہوری نظام کے پٹری سے اتر جانے کے خدشات مضمر ہوتے ہیں لہذا استعفوں کا آپشن آخری آپشن ہو تا ہے لیکن تحریکِ انصاف نے اسے اپنا پہلا آپشن بنایا جس کا انھیں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہو سکا۔یہ غلط وقت پر ایک غلط فیصلہ تھا جس کا ادراک تحریکِ انصاف کی قیادت کو بھی ہو گیا تھا لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا جسے واپس نہیں لیا جا سکتا تھا ۔عمران خان تو استعفی لینے گئے تھے لیکن کچھ ناعاقبت اندیش دوستوں کے مشورہ پر اپنے استعفے دے بیٹھے جو سرا سر گھاٹے کا سودا تھا لیکن اس سنگین غلطی کے باوجود عمران خان نے جس ثابت قدمی سے الیکشن کو فراڈ،اسمبلی کو جعلی اور نظام کو کرپٹ قرار دیا اس سے عوام کے اندر یقین کی نئی دنیا ظہور پذیر ہوئی اور نئے پاکستان کی منزل قریب تر ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ لیڈر شپ کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ لق و دق صحرا میں بھی امیدوں کے پھول کھلا دیتا ہے اور یہی عمران خان نے بھی کیا تھا ۔١٦ اگست ٢٠١٤ کو پشاور سکول پر حملے پر عمران خان کو بادلِ نخوا ستہ اپنا دھرنا ختم کرنا پڑا کیونکہ عوام اب پوری یکسوئی سے دھشت گردی کا خاتمہ چاہتے تھے۔

Imran Khan

Imran Khan

دھرنا اٹھ گیا لیکن حکومت پر دبائو اب بھی بر قرار تھا کیونکہ قوم مئی ٢٠١٣ کے انتخا بات کے بارے میں شکوک و شبہات کی شکار تھی اور عمران خان انہی شکوک کو زبان عطا کر رہے تھے۔حکومت اس تگ ودو میں تھی کہ کسی طرح سے عمران خان اسمبلیوں کا با ئکاٹ ختم کر کے پارلیمنٹ میں واپس آ ئیں اور اپنا آئینی کردار ادا کریںلیکن کوئی مثبت نتیجہ بر آمد نہیں ہو ہا تھا کیونکہ تحریکِ انصاف جو ڈیشل کمیشن کے بغیر اسمبلیوں میں واپس جانا نہیں چاہتی تھی کیونکہ اس طرح اس کی سیاست ختم ہو سکتی تھی۔انھوں نے غلط فیصلہ تو کر لیا تھا لیکن اب اس سے کسی طرح سے بچ کر نکلنا چاہتی تھی جو جوڈیشل کمیشن کے بغیر ممکن نہیں تھی ۔حکومتی وفد تحریکِ انصاف کے آگے پیچھے پھرتے رہے کہ کسی طرح انھیں گھیر گھار کر پارلیمنٹ میں واپس لایا جائے لیکن بیل منڈ ھے چڑھتی ہوئی نظر نہیں آ رہی تھی۔ بہر حال کئی ماہ کی تگ و دو کے بعد حکومت تحریکِ انصاف کو اپنے جال میں پھانسنے میں کامیاب ہو گئی اور یوں حکومت اور تحریکِ انصاف میں ایک معاہدہ طے پا گیا جس کی رو سے جوڈ یشل کمیشن قائم ہو گیا جو ٤٥ دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کریگا اور اگریہ ثابت ہو گیا کہ انتخابات مئی ٢٠١٣ میں دھاندلی ہوئی تھی تو وزیرِ اعظم پاکستان اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کر دیں گئے۔

معاہدے میں جس طرح کی زبان استعمال کی گئی ہے اور جس طرح اپوزیشن کو باندھنے کی کوشش کی گئی ہے اس سے منظم دھا ندلی کے ثا بت ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں لہذا یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کر جائیگی جس طرح پی پی پی نے اپنے پانچ سال پورے کئے تھے۔عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دوسروں پر اندھا اعتماد کرلیتے ہیں جس سے انھیں اکثرو بیشتر نقصا نات کا سامنا کڑنا پرتاہے۔مخدوم جاوید ہاشمی کا معاملہ ابھی کل کی بات ہے ۔عمران خان انھیں بہت عزت و احترام دیتے تھے اور ان کی رائے کو بڑا وزن دیتے تھے لیکن انھوں نے ٣١ اگست کو عمران خان کے ساتھ کیا کیا؟ایسے ایسے الزامات لگائے کہ لوگ ششدر رہ گئے ۔اگر چہ جاوید ہاشمی کی سیاست کا خاتمہ بھی تحریکِ انصاف کے ہاتھوں ہی ہوا لیکن وہ تحریک جو حکومت ہٹا ئو تحریک تھی اسے ناقابلِ تلافی نقسان پہنچا۔،۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد پاکستان تحر یکِ انصاف کی اعلی قیادت نے پارلیمنٹ میں واپسی کا فیصلہ کیا کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ان کی انتخابی دھاندلیوں کی تحقیق کامطالبہ تسلیم کر لیاتھا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جو ڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ منوا لینا تحریکِ انصاف کی بہت بڑی فتح ہے اور اس فتح کیلئے انھوں نے جسطرح استقامت کا مظاہرہ کیا وہ پاکستانی تاریخ کے طویل ترین دھرنے کا نتیجہ ہے ۔ ١٢٧ دنوں تک دھرنا دینا جنونیوں کا ہی کام ہو سکتا ہے اور تحریکِ انصاف کے جنونویوں نے یہ کارنامہ سر انجام دے کر اپنی قیادت کا سر فخر سے بلند کر دیا۔

Pakistan Parliament

Pakistan Parliament

اسے حسنِ اتفاق کہہ لیجئے کہ یمن سعودی جنگ پر بحث کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا تو تحریکِ انصاف نے اس موقع کو غنیمت جان کر اس اجلاس میں اپنی واپسی کا اعلان کر دیا کیونکہ جوڈیشل کمیشن کا ان کا مطالبہ پورا ہو چکا تھا ۔ تحریکِ انصاف کی اعلی قیادت بڑے فاتحانہ انداز میں پارلیمنٹ میں واپس آنا چاہتی تھی لہذا و ہ امید لگائے بیٹھی تھی کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے تاریخی کارنامے پر پارلیمنٹ میں ان کا بڑا والہانہ استقبال ہو گا اور ان کی کاوشوں کی مدح سرائی ہو گی۔ انھیں کیا خبر تھی کہ مسلم لیگ (ن) کوئی دوسرا ہی کھیل کھیلنا چاہتی ہے اور پرانے زخموں کا حسا ب لینا چاہتی ہے۔وفاقی وزیرِ دفاع خوا جہ آصف نے تحریکِ انصاف کے وفد کا جسطرح استقبال کیا اور جسطرح کے جملوں سے ان کو مخاطب کیا وہ تحریکِ انصاف کے وہم و گمان میں بھی نہیںتھا ۔دادو تحسین کی توقع رکھنے والوں کو جب بے شرم،بے حیا کے القابات سے نوازا گیا توتحریکِ انصا ف کی قیادت سکتے میں چلی گئی۔خواجہ آصف گرجتے رہے ،برستے رہے اور اپنی بھڑاس نکالتے رہے لیکن تحریکِ انصاف والے لب بمہر گونگے بہرے بنے اپنی رسوائی کا تماشہ دیکھتے رہے ۔ ان میں ایسے ممبرانِ اسمبلی بھی تھے جھنیں اپنی زبان دانی اور فصا حت و بلاغت پر بڑا ناز ہے لیکن اس دن ان کی بولتی بند ہو چکی تھی۔کسی ایک میں بھی اتنی ہمت پیدا نہ ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر خواجہ آصف کو ٹوکتا اور ان کی خبر لیتا۔

خواجہ آصف نے جس طرح کی زبان استعمال کی وہ انتہائی نازیبا اور پارلیمنٹ کے وقار کے منافی تھی۔ان کے خیالات سے تو اختلاف نہیں کیا جا سکتا لیکن لفظوں کے چنائو میں وہ مات کھا گئے۔جس کسی نے بھی وہ تقریر سنی اس کے منہ کا ذائقہ خراب ہوا ۔کمال یہ ہے کہ عمران خان اس رسوائی کے بعد ایک دفعہ پھر مظلوم بن کر سامنے آئے کیونکہ خواجہ آصف نے غیر شائستہ زبان استعمال کر کے انھیں مظلوم بنا دیا۔ اگر خواجہ آصف مدبر سیاست دانوں کی طرح اس موقعہ کا مناسب فائدہ اٹھاتے تو ان کا قد کاٹھ بہت بڑ ھ جاتا بالکل اسی طرح جیسے پچھلے مشترکہ اجلاس میں اعتزاز احسن نے اپنے نپے تلے انداز ِ بیان اور الفاظ کے بہترین چنائو سے اپنا قد کاٹھ بڑھا لیا تھا۔عمران خان کا پارلیمنٹ میں جانا سیاسی لحاظ سے غلط فیصلہ تھا۔انھیں جو ڈیشل کمیشن کے حتمی فیصلے تک پارلیمنٹ سے دور رہنا چائیے تھا کیونکہ یہی راستہ ان کی عزت و احترام کا راستہ تھا ۔ دوسری صورت یہ تھی کہ مسلم لیگ کا ایک وفدانھیں خود پارلیمنٹ میں لے کر جاتا اور ان کا والہانہ استقبال کرتا۔میری ذاتی رائے میں تحریکِ انصاف کے کچھ کم دل لوگ پارلیمنٹ میں وا پسی کیلئے بے تاب تھے اور ان کی یہی بے تابی عمران خان کی سبکی کا باعث بنی۔عمران خان کو ایسے دوست نما دشمنوں سے ہوشیار رہنا ہو گا کیونکہ یہ موقعہ پرست دوست آئیندہ بھی اس طرح کی بونگیاں مارکر انھیں رسوا کرنے سے باز نہیں آئیں گئے۔،۔

Tariq Butt

Tariq Butt

تحریر: طارق حسین بٹ۔ چیرمین پیپلز ادبی فورم