پی ٹی آئی حکومت کی حقیقی پہچان کرپشن کے خلاف اس کا وہ طبلِ جنگ ہے جس سے پاکستان کے درو دیوار کانپ رہے ہیں۔اس طبلِ جنگ نے ہر سو غیر یقینی کی ایسی کیفیت پیدا کر رکھی ہے جس سے ملکی معیشت کی کشتی ہچکولے کھاتے ہوئے دھیرے دھیرے بے نام جزیروں کی جانب رواں دواں ہے۔ خبروں کاسارا زور اسی ایک نکتہ پر ہے کہ آئیندہ جیل کی ہوا کس نے کھانی ہے ؟گرفتاری کا بنیادی مقصد اپوزیشن جماعتوں کا احترام خاک میں ملانا ہے تا کہ عوامی نگاہ میں ان کا وقار داغدار ہو جائے ۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی قیادت زیرِ عتاب ہے جبکہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا کہیں بھی ذکرِ خیر نہیں ہوتا حالانکہ جنرل پرویز مشرف نے تو اکیلے دس سال حکومت کی تھی لہذا ن کے دورِ حکومت میں کرپشن اور لوٹ مار کے امکانات زیادہ تھے۔
شخصی حکومت میں فقط کرپشن کا ہی احتمال ہو تا ہے کیونکہ آمر سارے فیصلے تنِ تنہا کرتا ہے ۔حیران کن بات یہ ہے کہ کسی منصف اور کسی دیدہ ور کی نگاہ کا وہاں تک گزر نہیں ہو تا تاکہ اس بات کا سراغ لگایا جائے کہ طالع آزمائی میں کیا کیاگل کھلائے گئے تھے ؟کیا آمر کے ذکرِ خیر سے کچھ حلقوں کے پر جلتے ہیں یا اس کے ذکرِ خیر کا کسی کو اذن نہیں ہے؟ ہم سارے ایک ہی معاشرے کے افراد ہیں ۔ہم میں سے کچھ حکمران بن جاتے ہیں،کچھ پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو جاتے ہیں ،کچھ انصاف کی مسند پر جلوہ افروز ہو جاتے ہیں، کچھ بیوو کریسی کا حصہ بن جاتے ہیں،کچھ وزارتی قلمدان سنبھال لیتے ہیں، کچھ انتظامی امور کے ماہربن جاتے ہیں،کچھ تاجر بن جاتے ہیں،کچھ صنعتکاور بن جاتے ہیں،کچھ سرحدوں کے محافظ بن جاتے ہیں،کچھ قانون کے رکھوالے بن جاتے ہیں۔
کچھ بینکار بن جاتے ہیں،کچھ ڈاکٹرز بن کر مسیحائی کا دھندا سنبھال لیتے ہیں لیکن سب کا مائنڈ سیٹ ایک ہی ہوتا ہے ۔ایک ہی مٹی سے جنم لینے والے افراد صلا حیتو ں میں تو مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ان کی کے رویے، اپروچ،مائنڈ سیٹ اور سوچ ایک جیسی ہوتی ہے۔ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں کچھ (عجز والے بھی ہیں مست مہِ پندار بھی ہیں ۔بد دیانت بھی ہیں ایماندار بھی ہیں)۔ لہذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسی مٹی سے جنم لینے والے جنرل پرویز مشرف کے سارے ساتھی تو فرشتہ خصلت ہوں جبکہ دوسری سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتا لٹیرے اور چور اچکے ہوں ؟یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں لہذاسیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر سب کو احتساب کی عدالت میں پیش کیا جا نا چائیے اور ان سے ملکی دولت کا حساب لیا جا نا چائیے لیکن یہاں توحالت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف خود عدالت میں پیش ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔غداری کے مقدمہ میں وہ یا تو ہائوس اریسٹ ہو جاتے تھے یا پھر ہسپتال میں مریض بن کر قانون و انصاف کے ساتھ کھلواڑ کرتے تھے۔عدالتییں انھیں وطن واپس نہیں لا سکتیں تو انصاف و قانون کی بے بسی کی ایسی تمام وجوہات پر بات ہو نی چائیے۔
کیا قانون کمزور ہے؟ کیا وہ قانون سے بالا تر ہیں ؟ کیا وہ قانون سے زیادہ طاقتور ہیں؟۔کیا انھیں عدالتی استثنی حاصل ہے؟کیا کسی مخصوص ادارے کے فرد سے سوال نہیں کیا جا سکتا ؟ سوال یہ نہیں ہے کہ کمانڈو کو کس طرح ملک سے فرار کروایا گیا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے منصف طالع آزما ئوں کے بارے میں خاموشی کی چادر کیوں اوڑھ لیتے ہیں؟یہ خاموشی ایک علیحدہ کہانی بیان کرتی ہے لیکن اس کہانی کا کہیں پر ذکر نہیں ہوتا۔کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اس کہانی کے اہم کردار وں کے بارے میں کوئی حکم جاری کر سکے ۔جب کسی طالع آزما کا ذکر کرنا اور اسے کٹہرے میں کھڑا کرنا ممنوع قرارپائیگا تو پھر احتساب کا سارا عمل یکطرفہ ہو جائیگا ۔میں تو اسے احتساب کے نام پر دھوکہ دہی ہی سے تعبیر کروں گا کیونکہ جب تک قانون طاقتور کو اپنے سامنے دو زانو نہیں کرتا اس وقت تک کسی احتساب کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ پاکستان کو اس وقت جس آزمائش کا سامنا ہے وہ احتساب سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
پاکستان میں ایک ایسا مائنڈ سیٹ لاگو ہے جس میں کمزورو ںاور مخالفین کے خلاف قانون کا شکنجہ کس کر سزا کا پھندا ان کی گردن میں فٹ کر دیا جا تا ہے جبکہ اپنوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ہمیں اس مائنڈ سیٹ کو شکست دینا ہے جس میں ہم بحثیتِ قوم گرفتار ہیں اور جس مائنڈ سیٹ میں مخالف موجبِ سزا جبکہ طاقتور لا ئقِ ِ تحسین۔ظلم کی انتہا تو دیکھئے کہ میڈیا اور انصاف کے علمبردار وں کو مقتدر حلقوں کانام زبان پر لانے کا اذن نہیں ہے ۔اکبر بگٹی کا قتل ہو،دخترِ مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو کا لہو ہو سب بے وقعت اور بے مایا ٹھہرتے ہیں کیونکہ اس گلستان میں تقدس صرف اس ایک مخصوص خون کو حاصل ہوتا ہے جسے خفیہ ہاتھوں کی اشیر واد حاصل ہوتی ہے ۔جب دوسروںکے خون کو خون نہیں بلکہ پانی سمجھا جائیگا تو پھر سارے مروجہ اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور لوگوں کا احتساب سے ایمان اٹھ جاتا ہے۔کوئی ہے جو اس گتھی کو سلجھا سکے؟
اس وقت عمران خان کو پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے احتساب کا سیاپا پڑا ہوا ہے کیونکہ مقتدر حلقے ایسا چاہتے ہیں جبکہ جنرل پرویز مشرف کی تخلیق کردہ ق لیگ کے سارے کرتا دھرتااور وزراء بڑے اطیمنان سے موجودہ حکومت کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور ہر قسم کے احتساب سے بالا تر قرار پائے ہیں۔احتسابی معیار قانون کی منشاء کی بجائے ذاتی پسند و نا پسند پر مبنی ہے۔نیب جسے چاہتی ہے گرفتار کر لیتی ہے جسے چاہتی ہے ڈھیل دے دیتی ہے۔نیب کے ریفرنسوں پر پی ٹی آئی والوں کی گرفتاری توعمل نہیں آتی جبکہ مسلم لیگ(ن) والے تفتیشی عمل کے آغاز میں ہی دھر لئے جاتے ہیں ۔ خواجہ سعد رفیق اور میاں شہباز شریف اس کی واضح مثالیں ہیں جبکہ پر ویزخٹک ،زبیدہ جلال،بابر اعوان ، علیم خان ،پرویز الہی ،اعظم سواتی پر ریفرنس دائر ہونے کے باوجود انھیں ہتھکڑیاں نہیں لگائی جاتیں کیونکہ نیب کو ایسا کرنے کا اذن نہیں ہے۔
عمران خان کی نیب کے چیرمین سے ملاقاتوں کا لبِ لباب یہی ہے کہ اپوزیشن کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے تا کہ اپوزیشن خوفزدہ ہوکر حکومت کے خلاف جارحانہ طرزِ عمل اختیار کرنے سے باز آ جائے اور وہ من پسند فیصلوں سے یک جماعتی نظام کی داغ بیل ڈال سکیں۔میری ذاتی رائے میں اپوزیشن تو بڑی فراخ دلی سے حکومت کو پانچ سالہ مدت پوری کرنے کی گارنٹی دے رہی ہے تا کہ جمہوری عمل آگے بڑھ سکے لیکن پی ٹی آئی کے لچھن ایسے ہیں کہ وہ خود ہی اپنی حکومت کی دشمن بنی ہوئی ہے اور وقت سے پہلے مڈ ٹرم انتخابات کی راگنی الاپ رہی ہے ۔اس نے احتساب کا جو نعرہ بلند کیا ہوا ہے اس میں اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت نہ ملنے سے وہ الزاماتی سیاست کا سہارا لے رہی ہے جس سے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور سرمایہ کاری بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے ۔ پی ٹی آئی کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ احتساب کا نعرہ نہ لگائے تو پھر اس کے پاس بیچنے کا کوئی دوسرا چورن نہیں ہے ۔اس کی انتظامی صلاحیتیں پہلے ہی کھل کر سامنے آ چکی ہیں جس سے ملک دن بدن معاشی بد حالی ، مہنگائی ،بد امنی اور انتشار کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے ۔کاروباری دنیا میں جس طرح کی کساد بازاری ہے وہ بیان سے باہر ہے۔تجاوزات ہٹانے کے نام پر جس طرح کارو بار تباہ کئے گئے ہیں اس سے بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔
قبضہ گرپوں سے کسی بہتر طریقہ سے بھی نپٹا جا سکتا تھا لیکن تجاوزات کے نام پر اربوں روپوں کے جو کارو بار تباہ ہو ئے ہیں اس سے قبضہ گروپوں کا تو شائد کچھ نہ گیا ہو لیکن اس سے دکانداروں، تاجروں اور سرمایہ کاروں کو جو نقصان اٹھا نا پرا ہے وہ سمجھ سے بالا تر ہے ۔قبضہ گرپوں کی جائدادیں گرانے کی بجائے حکومت کسی قانون اور آرڈینینس سے ان جائدادوں کو اپنی تحویل میں لے سکتی تھی تا کہ کاروباری لوگ بھی محفوظ رہتے اور قبضہ گروپ بھی قابو میں آ جاتے لیکن یہاں پر تو تعمیر کی بجائے تخریب کو ترجیح دی گئی ہے جس سے معیشت کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا۔ریاستی معاملات جب جذباتی انداز میں حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے نئی خرابیاں جنم لیتی ہیں ۔ قبضہ گرپوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا مستحسن عمل ہے لیکن قبضہ مافیا کے نام پر تاجربرادری کو سزا دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال