یہ شروع سے ہی چلا آ رہا ہے کہ ہر وہ شخص منہ کے بل گرا جس نے بغیر سوچے سمجھے بڑی بڑی باتیں کیں۔ایسا ہی کچھ ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب نے کیا۔جن کی حکومت کو دوسال ہو گئے لیکن ابھی تک ان کی سیاست محض باتوں تک ہی محدود ہے۔الیکشن سے پہلے خان صاحب نے عوام کو بڑے بڑے خواب دکھائے،ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا۔لیکن جیسے ہی وہ اقتدار میں آئے تو سب بھول گئے وہ اپنی کہی ہوئیں باتوں سے بے خبر ہو گئے،اور ان کی پارٹی جس نظریے پر قائم تھی آج وہ اس نظریے کو بھی بھول بیٹھے۔
خان صاحب الیکشن کے دوران بس ایک ہی بات کرتے تھے کہ میں نواز شریف یا زرداری کی طرح کرپشن نہیں کروں گا،اور اس ملک کو مدینہ کی ریاست بناؤں گا۔لیکن بہت ہی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان دو سالوں میں نہ تو وہ کرپشن پر قابو پا سکے اور نہ ہی عوام کو ریلیف دے سکے۔وہ لوگ جو نواز شریف کو کرپٹ سمجھتے تھے اور جنہوں نے خان صاحب کو بڑی امید سے ووٹ دیا تھا آج وہی لوگ خان صاحب کو بدعائیں دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف اگر کرپٹ تھا بھی لیکن اس نے عوام کو ریلیف بھی دیا تھا وہ کھاتا تھا تو لگاتا بھی تھا۔وہی عوام جو خان صاحب کے پیچھے دیوانوں کی طرح بھاگتی تھی اور ان پر اندھا اعتماد کرتی تھی دعائیں کر رہی ہے کہ نواز شریف صاحب دوبارہ برسراقتدار آ جائیں۔کیونکہ عوام کو صرف اس چیز سے غرض ہوتی ہے کہ حکمران ان کی بہتری کیلیے کچھ کر سکے،مہنگائی پر قابو سکے،بیروزگاری کم کر سکے،تعلیم اور صحت کیلیے بہتر اقدامات کر سکے۔جبکہ خان صاحب ان کیلیے کچھ
بھی نہیں کر سکے۔آج ہر صاحب عقل مایوس ہو چکا ہے اور وہ ایک ہی بات سوچ رہا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ملک میں تیسری بڑی جماعت آئی اور وہ بھی ناکام ہو گئی۔وہ خان صاحب سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ بائیس سال کی جدوجہد کے بعد آپ اقتدار میں آئے لیکن آپ کیوں مکمل طور پر ناکام ہو گئے؟وہ عوام کی توقعات پر کیوں نہ پورا اتر سکے،اپنے منشور سے کیوں پیچھے ہٹ گئے، کیوں ملک سے غربت ختم کرنے، ملک کو مضبوط کرنے، وسائل کی یکساں تقسیم، اور انصاف کا نظام قائم کرنے کے خواشمند ملک کے اعلی اعلی دماغ ایک ایک کر کے خان صاحب سے الگ ہو گئے، ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی نالائقیوں سیتنگ تیسری طاقت کا خواب شرمندہ تعبیرکیوں نہ ہو سکا۔آپ کراچی کی سیاست کو ہی دیکھ لیں نجیب ہارون کو دیوار سے لگا دیا گیا،فردوس شمیم نقوی سوائے اداکاری کے کچھ نہیں کر رہے،اسی طرح خرم شیر زمان،علی زیدی اور فیصل واوڈا کو دیکھیں جو میڈیا پر آتے ہیں اور پریس کانفرنس کرکیچلے جاتے ہیں۔ان لوگوں کے حلقوں میں جا کر دیکھیں کہ عوام ان سے کتنی تنگ ہے۔کراچی کی عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ پی پی پی سے تنگ آ کر دیا تھا تاکہ کراچی کی عوام کے بنیادی مسائل حل ہو سکیں خاص طور پر صفائی ستھرائی کیلیے کچھ مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔لیکن عوام کو کیا ملا ان کے ساتھ وہی کیا جا رہا ہے جو پی پی یا ایم کیو ایم نے کیا تھا۔
عمران خان جب بھی اپنی بائیس سالہ جدوجہدکی بات کرتے ہیں تو ان کو ایک لمحے کیلیے یہ بھی سوچنا چاہئیے کہ ان کے وہ مخلص دوست کہاں کھو گئے جو ہر وقت سائے کی طرح ان کے ساتھ ہوتے تھے۔شوکت خانم ہسپتال میں جن لوگوں نے عمران خان کا ساتھ دیا تھا آج وہ ہمیں کیوں نظر نہیں آ رہے۔اگر خان صاحب آپ نے پارٹی میں ایم کیو ایم،پی پی اور ن لیگ کے ہی لوگ لے کر آنے تھے تو پھر اقتدار میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔آپ نے اہل لوگوں کو ٹکٹ نہ دے کر خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی اور آج حالات آپ کے سامنے ہیں۔خان صاحب کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حقیقی اور مخلص
دوستوں کے بجائے سیاسی دوستوں کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں آج ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔دو سال گزر گئے اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کر سکی۔لیکن ابھی بھی وقت ہے خان صاحب کو آنکھیں کھولنی ہوں گی،سب سے پہلے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار صاحب کو ان کے عہدے سے ہٹانا ہو گا،اس کے بعد اپنی وہ اصل ٹیم ڈھونڈنی ہو گی جن کے ساتھ مل کر وہ اس ملک کی بہتری کیلیے کچھ کر سکیں۔اور ایک آخری بات خان صاحب اس وقت کشمیری عوام آپ کی طرف دیکھ رہی ہے،آپ کی تقریر کرنے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا بلکہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ آپ آرمی چیف،عوام اور اپوزیشن کو اعتماد میں لیں اور کشمیر کیلیے وہ کرگزریں جس سے ان کو آزادی نصیب ہو سکے۔آخر میں اللہ سے یہ دعا ہے کہ وہ آپ کو کامیاب کرے تاکہ اگلے الیکشن میں آپ کو اپنی پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پرعوام کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔