تحریر : عارف رمضان جتوئی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ہاتھ ہوگیا۔ ہاتھ کرنے والے کون تھے یہ معمہ ابھی حل ہونا باقی ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 246 کے ضمنی الیکشن کی انتخابی مہم کے سلسلے میں تمام امیدوار پارٹیاں اپنے اپنے طور پر جلسے جلوسوں کا اہتمام کر رہی ہیں۔ گزشتہ روز تحریک انصاف نے بھی ایک بڑا پنڈال سجایا۔ جلسے کا مقصد حلقے میں ووٹر کواپنی پارٹی کے حق میں مہریں لگوانے پر آمادہ کرنا تھا۔ جلسے میں تا حد نگاہ لائٹس اور سائونڈ سسٹم کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اچانک دوران جلسہ بجلی چلی گئی اور پھر سینڈ بائی طور پر رکھے جنریٹرز کی تاریں کاٹ دی گئیں۔ عام شہریوں نے تبصرہ کرتے ہوئے اپنے الفاظ میںکہا کہ تحریک انصاف کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔ جس کا پارٹی قیادت نے شہری حکومت اور انتظامیہ پر الزام عائد کیا۔ قیادت نے جلسے کو ناکام بنانے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس کا ملبہ بھی متحدہ قومی موومنٹ پر ڈال دیا۔
لائٹس کا انتظام عموما جلسہ گاہ کی تیاریوں کا اہم جزوسمجھا جاتا ہے، جبکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے متبادل لائٹس یا بجلی کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ تاریخی پس منظر میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسوںمیں ہمیشہ کہیںنہ کہیں کمی و کوتاہی کا عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ برس پنجاب میں جلسے کے دوران بھگدڑ مچنے اور لائٹس بند ہونے کی وجہ سے جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ کھانے کے انتظامات پر جھگڑا، پارٹی کے آپس میں اختلافات اور کارکنان کی ہاتھاپائی جیسے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں۔ جس سے پی ٹی آئی قیادت با خوبی واقف ہے۔
کراچی میں پی ٹی کا جلسہ ان تمام مسائل کے باوجود پھر ایک بار مسائل کا شکار ہوگیا۔ تحریک انصاف انتظامیہ کو موردالزام ٹھہرا کر اپنی غلطیوں سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔ اگر یہ بات درست بھی ہو کہ انتظامیہ کی غفلت کے باعث لائٹس کا انتظامات دھرم بھرم ہوا تو اتنے بڑے جلسے میں منظم اور متبادل بجلی کا انتظام شہری حکومت کی نہیں بلکہ جلسہ انتظامیہ کاکام تھا۔ تحریک انصاف کی ترجمان شریں مزاری کی جانب سے جنریٹرز کے تار کاٹنے کی بھی بات سامنے آئی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ آیا وہ تار باہر سے لوگ آکر کاٹ گئے یا پھر خود پی ٹی آئی کے کارکنان نے کاٹے۔
Karachi Police
یہ بات بھی اہم ہے کہ جلسے میں کسی بھی ہنگامی صورتحال، کشیدگی اور بیرونی سازشوں سے نمٹنے کے لئے 34 اعلیٰ افسران کی زیر نگرانی 3500 پولیس اہلکار علاوہ رینجرز اہلکاروں تعینات تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے سیکورٹی انتظامیہ سے معاملے کی سنجیدگی کے بارے میں کس حد تک تعاون کیا؟ خود تحریک انصاف کی اپنی انتظامیہ کہاں تھی جو اس پورے جلسے کو دیکھ رہی تھی۔ جلسے میں ایک افسوسناک پہلو یہ بھی رہا کہ پارٹی کے ٹیگرز اپنی انسانیت کھو بیٹھے۔ اس بات کی ذمہ داری انتظامیہ پر نہیں بلکہ خود تحریک انصاف کی قیادت پر عائد ہوتی ہے کہ انہیں خواتین کومکمل تحفظ فراہم کرنا چاہیے تھا۔
حلقہ این اے 246 اس وقت نہ صرف کراچی کے بلکہ پورے پاکستان کے لئے اہمیت کا حامل ہوچکا ہے۔ اس حلقے کی اہمیت سے پارٹیوں کی قیادت بھی لا علم نہیں یہی وجہ ہے کہ تمام پارٹیوں کی مرکزی قیادت کے زیر اہتمام جلسے منعقد ہورہے ہیں۔ جن میں پارٹیاں اپنی اپنی طور پر ووٹرز کو ضمنی انتخابات کی طرف مدعو کر رہے ہیں۔ ایسے میں علاقے کے نمائندے کے طور پر لڑنے والوں میں تحریک انصاف اپنے جلسے کے انتظامات کو کنٹرول نہیں کر سکتی تو کیا وہ حقیقی نمائندے کے طور پر اہل علاقے کا بوجھ سنبھال پائے گی۔ بات صرف اس ایک جلسے کی نہیں ہے گزشتہ جلسوں اور ریلیوں کو مد نظر رکھتے تحریک انصاف کی مجموعی صورتحال شاید ان کے ووٹرز کو اعتماد میں نہیں لے پائے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ 246 سے متحدہ قومی موومنٹ کنور نوید، پاکستان تحریک انصاف سے عمران اسماعیل اور جماعت اسلامی سے راشد نسیم اور کچھ چھوٹی جماعتیںاور آزاد امیدوار ضمنی انتخابات میں مد مقابل ہوں گے۔ اس معرکے کو سر کرنے کے لئے تحریک انصاف کو اپنی حقیقی نمائندگی کاثبوت دینا ہوگا۔ اگر یہ سلسلہ ایسا رہا کہ تحریک انصاف ہوا کے مخلوق کے طور پر آئی جلسہ کیا اور پھر چلی گئی تو ایسے میں عوام کبھی بھی انہیں اپنا حقیقی نمائندہ تسلیم نہیں کرسکے گی۔