گزشتہ دنوں وزارت برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا ایک بیان نظروں سے گزرا تو زیادہ حیرت نہی ہوئ کیونکہ پی ٹی آئ کی سیاست مفروضوں اور ہوائ باتوں پر مشتمل ہے۔ یا تو ان کے دعواؤں میں وزن نہی ہوتا اور یہ یو ٹرن لیتے ہوئے معزرت بھی نہی کرتے یا پھر ان کو محنت کرنے کی عادت نہی ہے۔ کیونکہ اگر کسی چیز کو پلان کر کے سوچ سمجھ کر کیا جائے تو اس میں محنت لگتی ہے مگر کوئ کام یا اعلان سوچنے سے پہلے کر لینا اور پھر سوچنا یہ بات پی ٹی آئ سے زیادہ کون جانتا ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو برابری کے حقوق حاصل ہیں اور یہ کہ پاکستان میں اقلیتوں اور اکثریت میں کسی قسم کا کوئ امتیاز نہی ہے۔ مضید فرماتی ہیں کہ بلکہ امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کو مشکلات ہیں ان کو برابری کے حقوق حاصل نہی ہیں۔ اور جیسے پاکستان مین چرچز اور مندر بنانے کی آزادی ہے مغرب میں وہ آزادی مسلمانوں کو نہی ہے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری کے بیان پر میں اپنا تجزیہ صرف برطانیہ اور یورپ کی حد تک دونگا کیونکہ امریکا ابھی تک نہی گیا ہوں اس لئے اس حوالے سے میرا مشاہدہ صرف سنی سنائ باتوں تک محدود ہے۔ پہلی بات یہ کہ اگر پاکستان میں اقلیتوں اور اکثریت میں کسی قسم کی کوئ تفریق موجود ہی نہی ہے تو پھر پاکستان میں وزارت مزہبی امور اور بین المزاہب ہم آنگی کی وزارت کی ضرورت نہی ہونی چاہئے۔ اور صاحبزادہ نور الحق قادری کو فارغ کر دینا چاہئے۔ اور جو تنخواہ اور مراعات حکومت ان کو دے رہی ہے وہ بھاشا ڈیم کے فنڈ میں جانی چاہئے۔ ہمارے ملک میں مزہبی، مسلکی اور صوبائ تفریق موجود ہے اس پر جو انکار کرتا ہے وہ جھوٹا اور منافق ہے۔ مزہبی یا لسانی تفریق چھوٹے گروپ یا کمیونٹی کو کسی بڑے گروپ سے ہوتی ہے جہاں سے انسان کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ تو اگر ہم ڈاکٹر شیریں مزاری کی بات مان لیں کہ پاکستان میں تمام مزاہب برابر ہیں اور کسی کے ساتھ کوئ امتیازی سلوک نہی ہے تو پھر تو ڈاکٹر صاحبہ کو بھی فارغ کر دینا چاہئے۔ کیونکہ انسانی حقوق کی پامالی کی سب سے بڑی وجہ تو مزہبی تفریق ہی ہے۔ یورپ اور برطانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ مزہبی امتیازی سلوک پر بھی میں ڈاکٹر صاحبہ کی بات کو غلط قرار دیتا ہوں
۔ یورپ اور برطانیہ میں حکومتی سطع پر کسی قسم کا کوئ امتیازی سلوک نہی ہے قوانین میں سب برابر ہیں۔ ہاں اگر کوئ شخص یا کوئ گروپ اپنی زاتی حثیت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھتا ہے تو وہ صرف مسلمان نہی ہیں ان ممالک میں مسیحیوں کو بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ہالینڈ میں میرے گھر کے چھ کلومیٹر کے دائرے میں تین بڑی مساجد ہیں۔ ایک بڑی عبادت گاہ قادیانیوں کی بھی زیر تعمیر ہے۔ اور بہت سے ایسے چرچز ہیں جو اب مساجد میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ برطانیہ میں تو پاکستانی مسلمان سیاسی میدان میں آگے ہیں ہی مگر یورپ میں ترکی، مراکش، پاکستانی، الجزائر، تیونس اور بہت سے ممالک کے مسلمان بڑی تعداد میں زندگی کے ہر شعبے میں آپ کو نظر آئینگے۔ ایمسٹر ڈیم شہر کی کسی بڑی سڑک پر ایک مسیحی تبلیغ کر کے دیکھے اسے سمجھ آجائے گی۔ یہاں بھی صرف پیغمبر اسلام کے خلاف توہین نہی ہوتی بلکہ مسیح ابن مریم کی زات کے خلاف بھی بہت سی توہین آمیز فلمیں ہیں جو عام طور پر سینماہ گھروں پر نظر آتی ہیں۔ پاکستان اور یورپ میں مزہبی امتیازی سلوک کی دلیل کو ایک ساتھ جوڑنا ویسے بھی کم عقلی ہے۔
کیونکہ یورپ میں دیگر ممالک کے لوگ باہر سے آکر بستے ہیں اور وہ کئ نسلوں تک غیرمقامی ہی تصور کئے جاتے ہیں مگر پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں غیر ملکی نہی ہیں اور نہ ہی کہیں باہر سے آکر بسی ہیں بلکہ وہ پاکستانی ہیں اس لئے یہ موازنہ کرنا ہی بد نیتی ہے۔ 1977 کے جنرل الیکشن میں قومی اسمبلی میں 207 ممبرز تھے جبکہ اقلیتوں کے 10 نمایندے تھے۔ جبکہ اس وقت کل آبادی تقریبا سات کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ 2018 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی مجموعی تعداد 342 ہے مگر اقلیتوں کے پاس آج 41 سال بعد بھی وہی 10 سیٹیں ہیں۔ اقلیتوں کے مجموعی طور پر تقریبا 33 لاکھ کے قریب ووٹ ہیں تو اگر آپ 10 سیٹیوں کو ان ووٹوں سے تقسیم کریں تو ایک ممبر کے لئے تین لاکھ کے لگ بھگ ووٹ آئیں گے کیا پاکستان میں کوئ ایسا نمایندہ ہے جس نے تین لاکھ یا دو لاکھ ووٹ لیکر سیٹ جیتی ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ اوسط دیکھی جائے تو ایک لاکھ ووٹ ہے تو اس صورت میں اقلیتوں کے پاس کم از کم 30 سیٹیں ہونی چاہئے۔ اگر ہم اپنے سبز ہلالی پرچم کو غور سے دیکھیں تو سفید پٹی پورے جھنڈے کا 25 فیصد ہے۔ اس حساب سے جائیں تو بات دور نکل جاتی ہے۔ کیا یہ انصاف ہے۔
آج بھی بلدیاتی اداروں اور دیگر حکومتی اداروں کی جانب سے سڑکوں کی صفائ، بیت الخلاؤں کی صفائ اور گٹروں کی صفائ کے لئے نوکریوں کے اشتہارات میں صاف لکھا ہوتا ہے کہ مزکورہ بالا نوکریوں کے لئے صرف اقلیت سے تعلق رکھنے والے نوجوان جو کہ مضبوط اور تندرست و توانا ہوں اور عمر 30 سے زیادہ نہ ہو رابطہ کریں۔یعنی اقلیتی نوجوانوں کا مستقبل یہ ہے کیا یہ انصاف ہے یا برابری ہے۔ اور ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اقلیتیں برابر کی شہری ہیں۔ ہمیں پی ٹی آئ سے امید تھی کہ ان کے آنے سے شائد اقلیتوں کے حالات میں کوئ تبدیلی آئے گی مگرہمارا بھرم اس وقت ٹوٹ گیا جب ان کے یوٹرن نے ایک اور ٹرن لیا یعنی اقتصادی مشاورتی کونسل سے عاطف میاں کو صرف اس لیے شامل کر کے خارج کر دیا کہ وہ قادیانی تھا۔ سوال پہلے کیوں شامل کیا؟۔وہ تو پہلے بھی قادیانی تھا۔ دوسرا سوال کیوں خارج کیا؟۔ جواب آپ دباؤ برداشت نہ کرسکے۔ پھر ایک دبنگ اعلان کے ریڈیو پاکستان کو لیز پر دیا جائے گا۔ اور کوئ دباؤ قبول نہی کیا جائے گا۔ پھر ایک چھوٹے سے احتجاج سے جو کہ ریڈیو پاکستان کے ملازمین کی جانب سے تھا اعلان واپس لے لیا گیا۔ یعنی کوئ کام بھی سوچے سمجھے بغیر نہی کیا جاتا۔ ایک طرف پی ٹی آئ کی حکومت پبلک اکاؤنٹ کمییٹی کے چئیرمین کے لئے شہباز شریف کو اس لئے منتخب کرنے سے انکار کر رہی ہے کہ چونکہ شہباز شریف کیسے اپنی کرپشن کے خلاف بننے والی کمیٹی کے چیئرمین بن سکتے ہیں تو دوسری طرف لیکشن کی تحقیقاتی کمیٹی کے لئے بننے والی پارلیمانی کمیٹی کے چئیپرمین پی ٹی آئ سے ہونا چاہئے تحریک انصاف اس بات پر ڈٹی ہوئ ہے یہ عجیب تضاد ہے۔