تحریک انصاف کا سفر مثبت سمت میں جاری و ساری ہے ہزار مخالفتوں کے باوجود نا تجربہ کار ٹیم تجربہ کاروں کی مشاورت سے سب رکاوٹوں اور سب پابندیوں کو پھلانگتے جا رہی ہے۔اسے بہت ساری مزاحمتی قوتوں کا سمان ہے ایسا لگتا ہے کپتان نے اپنی ٹیم میں اک شعلہ ء جوالہ بھر دیا ہے اور انہیں سمجھا رکھا ہے کہ سچ کے سفر میں کنکر ہیں روڑے ہیں پتھر ہیں مگر اللہ کا نام لے کر بڑھتے چلے جاؤ کوئی آپ کو روک نہیں سکتا کوئی آپ کو ٹوک نہیں سکتا۔تبدیلی کی اس گاڑی کے راستے میں پتھر روڑے اٹکانے والے بہت ہیں مگر سچ پوچھیں جس کا بھروسہ اللہ پر ہو اور جو انتہائی گنہگار سمجھتے ہوئے بھی ایک اس ریاست کی بات کرتا ہے جس کو اس نے ننگے پاؤں چھوا ہے اور وہ آج بھی اسی اللہ اور اس کے رسلوﷺ سے راہمائی لینے سعودی عرب پہنچ گیا ہے۔بہت سے دوروں کی بات ہو رہی تھی لوگ کہہ رہے تھے عمران امریکہ جائیں گے بریطانیہ کا دورہ ہو گا تو میرا دل کہہ رہا تھا عمران اسی کے پاس جائیں گے جس کے در سے یہ عہدہ ملا۔اور ہوا بھی وہی جو اس کے ایک جاں نثار افتخار اور اس جیسے ہزاروں نے سوچا۔آج پاکستان کے ویز اعظم اس دھرتی پر پہنچے ہیں جہاں ان کی پذیرائی امیر محمد بن سلمان کریں گے شاہ سلام کریں گے۔
میں کن لمحات میں کھیا ہوا ہوں یہ اللہ جانتا ہے سوچیں اتنی کہ کالم میں جگہ نہیں لیکن میں نے نے ہر وہ بات لکھی جو میرے دل نے دیکھیں مجھ پر بیتی ۴۰۰۲ کی وہ گھڑی جب میں پاکستان سے عمرہ کرنے گیا یہ وہ دوپر کا وقت ہے جو مجھے یاد آ رہا ہے صفاء مروہ کے اوپر والے حصے پر عمرہ ختم ہوتا ہے میرے ساتھ اسلم کھوکھر ہیں جو مجھے اپنے ساتھ لے گئے تھے میں نے ایک طویل القامت گندمی رنگ کے ایک شخص کو سیکورٹی کے جلو میں دیکھا میں نے نے بے دھڑک انہیں آواز دی اور کہا آپ کی عمر دراز ہو امیر سلمان میں ایک پاکستانی آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔انہوں نے مجھے پاس بلایا احرام میں ان سے مکالمہ ہوا میں نے عرض کی اے امیر آپ کو عمرہ مبارک ہو ہم پاکستانی آپ سے محبت کرتے ہیں۔عربی میں باتیں جاری تھیں میں نے یہ بھی کہا ہمارا پیار اس وجہ سے ہے کہ ہم ارض حرمین کو اپنا دوسرا نہیں پہلا گھر مانتے ہیں۔
ہمیں آپ کی اسلام دوستی سے پیار ہے۔انہوں نے بڑے شفیق انداز سے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور کہا ایضا بلکل ایسا ہی ادھر بھی ہے۔جزاک اللہ الف خیر۔یہ وطن آپ کا ہی ہے۔ وہ لمحات آج بھی مجھے یاد ہیں۔۰۱۰۲ میں جب جدہ کا معروف سیلاب آیا تو پاکستانیوں نے اپنے سعودی بھائیوں کو بچانے میں کردار ادا کیا بہت کم پاکستانیوں کو علم ہے کہ وہاں ایک سڑک شارع فرما علی خان کے نام سے بھی مشہور ہے۔یہ فرمان علی خان ایک غیور پٹھان تھا جس نے سیلاب میں بہتے ہوئے سترہ سعودیوں کو غویزہ کے علاقے میں بچایا۔البیک شارع مکہ الغویزہ کے پاس یہ سڑک اس بہادر فرمان علی خان کے نام پر آج بھی موجود ہے۔سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے اس ملک کی تعمیر میں خون پسینہ بہایا اور جانیں بھی دیں۔کبھی کسی گھڑی پاکستانیوں نے سعودی عرب کے بارے میں برا نہیں سوچا۔ ہم پاکستانیوں کو ایک غلط سبق پڑھانے کا سلسلہ کوئی تین دہائیوں سے جاری ہے۔ہمیں اس ملک کے لوگوں سے دور کرنے کی سازش ہو رہی ہے بلکہ کی جا رہی ہے اس سازش کو پھیلانے میں پیسہ شامل ہے۔
ہمیں کوئی نہیں بتاتا کہ یہ وہ ملک ہے کہ جس کی کرنسی پر پاکستانیوں کے نام لکھے جاتے تھے۔اس ملک کے ایک بادشاہ ہوا کرتے تھے جن کا نام نامہ شہید فیصل بن عبدالعزیز تھا وہ دسمبر ۱۷۹۱ کی اس شام لو گڑ گڑا کے روئے جب پاکستان دو لخت ہوا۔ہم زمانہ قبل از نائین الیون میں شیر و شکر تھے پھر ہمیں مسلمان فرسٹ کی بجائے پاکستان فرسٹ کے مکروہ نعرے کا گرویدہ بنانے کی کوشش کی گئی۔میں نے سعودی عرب کا کونہ کونہ دیکھا ہے وہاں رہاں ہوں بدویانہ معاشرے کے القسیم و بریدہ کے رمضان کی بھی یاد آتی ہے نجران جیزان الخمیس ابہاء کے دن بھی حفرالباطن کی شامیں اور ینبع جدہ کے ساحوں کی ہوائیں میرے دلو جان میں ہیں الخفجی جبیل دمام الخبر بھی اسی دل کے گوشے میں رہتے ہیں اپنے ایبٹ آباد سعودی عرب کے ابہاء جڑواں بھائی ہیں اس لئے کہ وہاں کے لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے چاہنے والے ہیں اور یہاں کے پاکستانی اس پر فدا ہونے والے۔ میں ایک مدت سے ایک تحریک چلا رہا ہوں کہ ہم حلقہ ء یاراں میں ایک ہی رشتے سے جڑے ملک ہیں ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں۔کچھ لوگوں کے ذہن میں ہے کہ ہم سعودی عرب کی طرف جب دیکھتے ہیں تو اس میں کوئی لالچ ہوتی ہے۔موجودہ پاکستان کے وزیر اعظم کسی وکھری مٹی سے بنے ہوئے پاکستانی ہیں وہ سعودی عرب کو اپنا دوست بھائی سمجھتے ہیں اور اسی طرح کی توقع وہ سعودیوں کی جانب سے بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے دنیا کی ایک ایٹمی طاقت جسے دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر جینے کا سلیقہ آ گیا ہے۔اسے علم ہے دنیا طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور اسے یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ چاپلوس لالچی کی زندگی کسی سگ آواہ سے کم نہیں۔
موجودہ پاکستان کو اس تازہ حلئے سے شناخت کیجئے۔سعودی عرب ہمارا بھائی ہے ہم اس کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتے ہیں اس لئے کہ دنیا کے بتکدے میں خدا کا پہلا گھر وہیں ہیں۔اور اس گھر کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ہمارے دلیر وزیر اعظم اقبال کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں قائد اعظم اور نقاش پاکستان کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔اس باحمیت پاکستان کو محبت کی نگاہ سے دیکھئے۔پاکستان کے لٹیروں کو موجودہ انتحابات میں شکست فاش مل چکی ہے۔شہنشاہ ایران کی طرح دھرتی انہیں پناہ نہیں دے رہی انہیں کسی جگہ دولت کے بل بوتے پر پناہ نہیں ملنی چاہئے۔سعودی عرب میں مقیم پاکستانی ایک عرصے سے پریشان ہیں۔بھلے سے اپنے قوانین کا نفاذ کریں مگر انہیں با وقار اخراج دیجئے وہاں کی کمپنیوں نے ان کے بقایہ جات مار رکھے ہیں انہیں دیجئے۔وہ ابنائے وطن یہاں آئیں ہم روکھی سوکھی کھا لیں گے بلکہ ہم تو اپنی روکھی سوکھی افغانیوں اور بنگالیوں بہاریوں کے ساتھ بھی بانٹنے کا اعلان کر چکے ہیں۔آپ بھی پیار دیجئے۔وہ ارض پاک ہے اور یہ ارض مقدس ہمیں بھی مدینے کی طرح پاکستان پیارا ہے اس لئے کہ مدینے کی خاک کی نسبت سے یہ ملک وجود میں آیا باقی اللہ وہ وقت سعودی عرب پر نہ لائے خدا نخواستہ وہ وقت آیا تو آپ کے حربیوں عیبیوں مالکیوں الدوسرویں اور زہرانیوں کی طرح ہمارے بٹ جٹ گجر بھٹی دفاع حرمین کے لئے خون کچھ اس انداز سے دیں گے کہ آپ کو اس خون میں فرق محسوس نہیں ہو گا۔