اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے رہنماﺅں اور کارکنوں کے خلاف بغاوت، اقدام قتل اور دہشتگردی سمیت مختلف دفعات کے تحت پانچ مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق شارع دستور اور ہسپتالوں سے اتوار کی شب اور پیر کو دو سو سے زائد کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے، جبکہ پولیس نے پنجاب میں دونوں جماعتوں کے عہدیداران اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع کردیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک رہنماءکے مطابق صرف لاہور سے ہی ان کی جماعت کے ڈیڑھ سو ورکرز کو حراست میں لیا جاچکا ہے، تاہم اس دعوے کو پولیس نے مسترد کردیا۔ پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں نے سیکرٹریٹ پولیس سٹیشن پر دھاوا بول کر اپنے رکن پنجاب اسمبلی افتخار ماشوانی کو چھڑا لیا۔
اتوار کی شب حکومت نے پولیس کے پاس پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے رہنماﺅں اور ورکز کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے لیے درخواست جمع کرائی تھی، جس پر بعد ازاں انسداد دہشتگردی ایکٹ، بغاوت کے لیے پاکستان پینل کوڈ کی شق 124اے، اقدام قتل کی دفعہ 324، سرکاری ملازمین پر حملہ یا فرائض کی ادائیگی سے روکنے کے لیے طاقت کے استعمال پر دفعہ 353، توڑ پھوڑ جلاﺅ گھیراﺅ پر دفعہ 148، غیرقانونی اجتماع پر دفعہ 149، آتش زنی یا دھماکہ خیز مواد سے کسی املاک کو نقصان پہنچانے کا ارادے پر دفعہ 436 اور دیگر کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور پی اے ٹی کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی دیگر افراد کے ساتھ اس مقدمے میں نامزد کیا گیا۔ آبپارہ پولیس نے ان دونوں جماعتوں کے رہنماﺅں اور کارکنوں کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کیا، جبکہ مارگلہ پولیس نے پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف آنسو گیس کے شیل فائر کرنے والے ہتھیار چھیننے اور پولیس کی ایک گاڑی نذر آتش کرنے پر دو الگ الگ مقدمات درج کیے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیڈرز شیریں مزاری، عارف علوی اور شاہ محمود قریشی کارکنوں کے ہمراہ سیکرٹریٹ پولیس سٹیشن پہنچے اور شکایت درج کرانے کے بعد طاقت کے زور پر رکن صوبائی اسمبلی افتخار کو حوالات سے چھڑالیا، اس دوران انہوں نے محرر پر حملہ بھی کیا جس پر ایک اور مقدمہ پی ٹی آئی کے خلاف درج کرلیا گیا۔
ان ایف آئی آرز کے مقابلے میں پی ٹی آئی قیادت نے سیکرٹریٹ پولیس سٹیشن میں ایک درخواست جمع کرائی جس میں پولیس، انتظامیہ کے عہدیداران اور ایک وفاقی وزیر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا تھا، تاہم اس مقدمے کو تاحال درج نہیں کیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پولیس پی ٹی آئی اور پی اے ٹی قیادت کے خلاف قتل کیس رجسٹر کرنے کے لیے قانونی رائے لے رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہفتے کی شب شارع دستور میں متعین پولیس اہلکار غیرمسلح تھے اور دو مظاہرین اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس حوالے سے قتل کی ایف آئی آر سیکرٹریٹ تھانے میں رجسٹر کرائی جائے گی۔ حکام کا مزید کہنا تھا کہ آئی جی خالد خٹک نے اہلکاروں کو ہدایت کی ہے کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف جتنے بھی مقدمات ہوسکے درج کیے جائیں۔
لاہور سے اسٹاف رپورٹر کی رپورٹ: پنجاب پولیس نے پیر کو رات گئے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے عہدیداران اور کارکنوں کے خلاف صوبے کے مختلف حصوں میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود ریلیاں نکالنے پر ایک کریک ڈاﺅن شروع کیا ہے۔ اس کریک ڈاﺅن کے دوران صوبے کے تمام ایس ایچ اوز کو بھیجی گئی فہرستوں کے مطابق گرفتاریاں کی جارہی ہے، تاہم لاہور میں اب تک سرکاری طور پر کوئی گرفتاری رپورٹ نہیں کی گئی اور پولیس اس حوالے سے پی ٹی آئی کے ایک رہنماءکے دعویٰ کی تردید کررہی ہے۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ یہ کریک ڈاﺅن صوبائی حکومت کے ‘ حکم’ پر شروع کیا ہے اور آئی جی نے ماتحت اہلکاروں کو’ زبانی’ احکامات جاری کیے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے بیشتر رہنماءاور نمایاں کارکن گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہوگئے ہیں جبکہ پولیس اہلکار ان کے گھروں اور دیگر مقامات پر چھاپے مار رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پولیس کو ہدایت کی گئی ہے کہ صوبے بھر سے پی اے ٹی کے کارکنوں کو گرفتار کیا جائے تاہم پی ٹی آئی کے صرف ان رہنماﺅں اور عہدیداران کو ہی حراست مٰں لیا جائے جنھوں نے ریلیاں اور دھرنوں میں شرکت کی ہو۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ان افراد کو کار سرکار کی جانب سے نافذ قوانین کی نافرمانی پر دفعہ 188 کے تحت حراست میں لیا جائے گا۔ علاوہ ازیں پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے پی ٹی آئی کے ڈیڑھ کے لگ بھگ کارکنوں کو لاہور کے مختلف حصوں سے گرفتار کرلیا ہے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ گرفتاریاں اقبال ٹاﺅن، فیصل ٹاﺅن، شاہدرہ اور باغبان پورہ کے علاقوں سے کی گئیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ صوبائی حکومت نے اپنے “گلو بٹوں” کو ہمارے کارکن اٹھانے کی ہدایت کی ہے تاکہ انہیں احتجاج اور دھرنوں میں شرکت سے روکا جاسکے۔ پی ٹی آئی رہنماءنے مزید کہا کہ ہماری قیادت کو فون پر دھمکیاں دی جارہی ہیں اور انہیں گھروں میں رہنے کا کہنا جارہا ہے۔