پاکستان تحریک انصاف تئیس سال کی ہو گئی۔ 25 اپریل 1996 کو اس کی بنیاد لاہور میں رکھی گئی اس کے بانی عمران خان اور دوسرے شریک نعیم الحق، احسن رشید، حفیظ خان، مواحد حسین، محمود اعوان، نوشیرواں برکی تھے۔عمران خان کو دنیا جانتی ہے نعیم الحق عمران خان کے یار غار احسن رشید جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ہمارے جدہ کے ساتھی اور سچ پوچھیں اچھے لوگ اللہ کو بھی پسند ہیں وہ چند برس پہلے اسی مرض کے ہاتھوں اس دنیا سے چلے گئے جس کے قیام اور اس کی بقاء کے لئے تن من دھن قربان کیا میری مراد شوکت خانم ہے۔احسن رشید نے جس وقت پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی وہ اس زمانے میں جدہ میں قائم فوکس پٹرولیم کے صدر تھے متعدد بار انہوں نے دعوت دی کہ پارٹی جائن کروں مگر میں انکاری رہا پھر وہ وقت آیا کہ جنرل مشرف بر سر اقتتدار آئے ایک منتحب حکومت کو چلتا کیا اور نعرہ لگایا کہ میں پاکستان فرسٹ کو فرسٹ سمجھتا ہوں۔مجھے شروع سے غاصب ناپسند ہیں چاہے ایوب خان ہو یا کوئی اور۔ہم آزاد ہوائوں کے متلاشی وطن عزیز کے لئے قائد اعظم کو اپنا قائد مانتے ہیں فکر رحمت علی اور سوچ اقبال کے گرویدہ ہیں۔سید مودودی کو پڑھ کر اسلام اور دو قومی نظریئے کے سپاہی ہیں۔جس وقت ریفرینڈم تھا تو خیر سے ہم جدہ جیل میں بند تھے۔یقینا پی ٹی آئی کی سوچ سے اختلاف تھا ہم سمجھتے تھے کہ جتنا نقصان ان مارشل لائوں نے ملک کو پہنچایا ہے شائد کسی اور نے نہیں ۔البتہ ان نام نہاد جمہوریت پسندوں نے بعد میں ہماری اس سوچ کا بھی فلتا فوس کر دیا۔
نوشیرواں برکی عمران کے کزن تھے محمود اعوان کو میں نہیں جانتا لیکن حفیظ خان کو جانتا ہوں یہ حفیظ خان سانولے سلونے اور بڑی پر کشش شخصیت کے مالک نوجوان تھے پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے۔لمبے بال بیل باٹم پینٹ چست شرٹس ستر کی دہائی کا فیشن تھا۔حفیظ خان بلا کے مقرر تھے ان کے بعد شائد جاوید ہاشمی صدر بنے۔جناب ضیاء شاہد اس پارٹی کو بنانے والوں کے علاوہ وہ فرد ہیں جو اسے چلانے بھی میدان میں آئے۔روزنامہ خبریں اس دور کا معبر اخبار تھا اس کی شہ سرخیوں میں عمران خان کو چھاپا گیا۔مواحد حسین کے بارے میں ضیاء شاہد کی کتاب میرا دوست نواز شریف میں پڑھا پتہ چلا موصوف معروف سیاست دان وہ ہر کسے قبول فرد سید مشاہد حسین کے بھائی ہیں۔مزے کی بات ہے محمد زبیر اور اسد عمر کی جوڑی سے پہلے بھی کئی جوڑیاں پاکستانی سیاست میں رہی ہیں ۔ان کا ذکر کروں تو ایک کالم ادھر ہی صرف ہو جائے گا مختصرا بتا دوں رانا موٹرز کے مالک جناب رانا اللہ داد جماعت اسلامی لاہور کے امیر تھے ان کے سگے بھائی ران خدادا مسلم لیگ کے نائب صدر تھے اور تیسرے بھائی یا کزن رانا نصراللہ خان جمیعت العلمائے اسلام کے ذمہ دار۔ایون خان کے بھائی سردار خان بہادر خان بھی کوچہ ء سیاست میں بڑا نام ہے۔جنہوں نے کیا خوب صورت شعر کہا
نیرینگی ء سیاست دوراں تو دیکھئے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے حفیظ خان بعد میں سعودی عرب چلے گئے اور وہاں منطقہ قسیم میں گندم اگائی مہم میں ایک کامیاب مدیر کی حیثیت سے وقت گزارا بعد میں وہ امریکہ چلے گئے اللہ عمر دراز کرے اب کوئی خبر نہیں۔
کہتے ہیں چمچہ ایسی چیز ہے وہ جس برتن میں جاتا ہے اسے خالی کر دیتا ہے سچ پوچھیں یہ کام ہو نہ سکا۔اس دن نسیم محمود خان بہادر کا شعر مجھ پر منطبق کر رہے تھے۔اللہ ان کا بھلا کرے کیا خوب شعر ہے پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ والی بات درست ہے۔احسن رشید نے پی ٹی آئی کو مال تو دیا ہی یہ واحد شخص ہے جس نے جان بھی دی یوں تو سلومی بخاری کا ذکر نہ کروں تو بات نا مکمل ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی کے اوائل دنوں میں کون کون تھا اس کا ذکر عمران خان اپنی کتاب میں بھی کر چکے ہیں ۔اگر سیف اللہ نیازی اس وقت پارٹی کے چیف آرگنائزر نہ ہوتے تو میں تفصیل سے لکھتا کہ ایک معصوم سا نوجوان جو پارٹی کے مشکل دنوں میں عمران خان کے ساتھ کھڑا رہا وہ سیف اللہ تھا۔سچ پوچھئیے جوانوں کو پیروں کا استاد کر میں جس جوان کی طرف اقبال کا اشارہ تھا وہ سیف اللہ نیازی کی طرف تھا۔
میں عمران خان کی فلاحی جد وجہد میں 1992سے ہوں ۔یہاں بھارہ کہو میں ڈاکٹر غلام اکبر نیازی ہوتے ہیں ان کا میڈیکل کالج ہے انہوں نے دوستوں کو مسعودی پوری کے گھر اکٹھا کیا جن میں چودھری اعظم،منیر گوندل،چودھری شہباز حسین اور جدہ کے دوست تھے ۔فنڈ ریزنگ کی اس بڑی تقریب میں ہم لوگوں نے پاکستانی کمیونٹی کو اکٹھا کیا۔وہاں جدہ کے میرڈین ہوٹل میں ایک بڑی تقریب ہوئی جس میں وہاں کے پاکستانیوں نے دل کھول کر عطیات دیئے۔وہ ایک یاد گار تقریب تھی پھول حافظ نبیل حسن چودھری نے پیش کیئے جو میرا بیٹا ہے اس تقریب کی کمپیئرنگ مرحوم عرفان خانزادہ نے کی ملک محی الدین ارشد خان مرحوم سردار رحمت خان مرحوم ،مرحوم انجینئر عبدالرفیع۔افضل مرزا اور ان گننت دوست موجود تھے۔کتنے لوگ اس دنیا سے چلے گئے وہاں عبدالقادر گجر جن کا تعلق قصور سے تھا انہوں نے جب چالیس ہزار ریال کا اعلان کیا تو میں نے لقمہ دے دیا کہ کرنسی وہ ہو گی جو بھابی کی ہے یوں یہ اعلان چالیس ہزار ڈالر میں تبدیل ہوا۔
یوم تاسیس کے موقع پر مجھے وہ دن بھی یاد آ رہا ہے کہ جب لائرز موومنٹ میں ہم لوگوں مشرف کے خلاف سڑکوں پر تھے۔میں نے محسوس کیا نون لیگی دوست صرف حاضری لگوانے آتے ہیں میں روزانہ احتجاج کے لئے جاتا مشرف میرا نشانہ ء خاص تھا اس لئے کہ ان کے دور میں ان کے نامزد سفیر سعودی عرب نے پاکستانیوں نے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا انہیں وہاں کی حکومت سے کہہ کر دفتروں گھروں سے اٹھوا لیا ۔پہلے چند لوگوں میں قاری شکیل عظمت نیازی آفتاب مرزا آفتاب ابڑو تھے۔ایک دن ترحیل جیل سے عظمت نیازی کا فون آیا آپ ایک ایسے اخبار سے منسلک ہیں جس کا سلوگن جہاں ظلم وہاں خبریں ہے ہم جیل میں بند ہیں ہمارے لئے کوئی آواز اٹھائو۔جدہ کی ڈائری میں لکھ دیا کہ کہ جس دور میں فقیروں کی کمائی لٹ جائے ذمہ دار سلطان ہوتا ہے اور یہاں جو پاکستانی جو نواز شریف کے قریب تھے ان کی کمائی جنرل (ر) اسد درانی نے لوٹی ہے۔
یہ مہاشے وہی ہیں جن کی پنشن بند ہو گئی ہے۔اور جنہوں نے انڈین را کے چیف کے ساتھ مل کر کتاب لکھی ہے اور تو اور اصغر خان کیس میں مہران بینک اسکینڈل میں نام ہے۔جدہ میں اکہتر دن جیل کاٹ کے پاکستان آ کر ایک سیٹھ کی نوکری کر رہا تھا میں وقت نکال کے اس جنگ میں شریک ہو جاتا۔ایک روز سخت گرمی تھی۔میں سپریم کورٹ بلڈنگ سے واپس پیدل شاہراہ دستور پر جا رہا تھا تو سامنے سے عمران خان اور احسن رشید نظر آئے ان کے ساتھ ایڈمرل جاوید اقبال بھی تھے اور کوئی سو پچاس کارکن بھی۔شدید گرمی میں پسینے سے شرابور احسن رشید اور دیگر۔یہاں احسن مرحوم نے کہا افتخار تمہیں دعوت پہلے بھی دی تھی اور اب بھی ۔اب مشرف کے خالف ہم ولاء کی تحریک میں ہیں ہمارا ساتھ دو۔کہنے لگے عمران اور میں تمہارے گھر آتے ہیں۔میں کئی دنوں سے اپنے آپ کو نون لیگ میں ان فٹ محسوس کر رہا تھا۔حالنکہ میاں نواز شریف اور ان کی پوری فیملی میری اس قربامی کی معترف تھی۔برادر حبیب اللہ بھٹی میری کاوشوں سے انہیں جدہ میں بتاتے رہتے تھے۔مجھت صدیق الفاروق کے ساتھ میڈیا سیل میں کو انچارج کی ذمہ داری دی گئی تھی۔سب سے بڑا فیکٹر عمران خان کا ایم کیو ایم کے خلاف واشگاف اعلان تھا 12 مئی کا اندوہناک واقعہ ہو چکا تھا۔مجھے عمران خان کی دلیری اچھی لگی تھی اس لئے کہ جدہ میں میری گرفتاری میں کچھ لسانیت پرست سنپولیوں کا ہاتھ تھا۔میں نے کہا نہیں آپ کا دفتر کدھر ہے جو ان دنوں اسمبلی ہال میں تھا میں وہاں گیا اور پی ٹی آئی جائن کر لی۔اس وقت سیف اللہ نیازی،کرنل یونس رضا،سردار اظہر طارق موجود تھے۔
پی ٹی کی نمو میں جتنا ہاتھ اسلام آباد اور راولپنڈی کے دوستوں کا ہے کسی اور کا نہیں البتہ لاہور میں امین ذکی شبیر سیال سلومی بخاری طلعت۔سر گرم تھیں لیکن میرے ساتھ جن ملک منیر شامل ہوئے تو ملک غلام حسین زاہد کاظمی پروین خان فیصل پیر زادہ کا ہاتھ زیادہ مضبوط ہوا یہاں اسلام آباد میں اللہ جنت بخشے زیاد عباسی،جمیل عباسی اویس،ثمینہ گنڈا پور رابعہ ایک سابق سفیر سلیم نواز گنڈا پور تھے۔برادر جاوید۔اکبر ایس بابر سرگرم لوگوں میں تھے پارٹی دفتر میں شہزاد عربی تھے رفیق واجب اللہ کا ساتھ بہت پیارا ساتھ تھا۔
یوم تاسیس کی تقریب پنڈی میں ہوئی جس میں ملک ندیم رانا سہیل،امجد علی خان شیر ملک غلام حسین ملک منیر فیصل پیرزادہ کے علاوہ چند خواتین ساتھی شامل ہوئیں پروین خان ہر جگہ موجود ہوتیں یہ 2008کے دن تھے۔2007سے 2009تک پی ٹی آئی کے تمام جلسے اور تمام تقریبات کی کمپیئرنگ میں کیا کرتا تھا جن میں نمل کالج کی بنیاد لیاقت باغ اے پی ڈی کا جلسہ صداقت عباسی کے سسر جناب حنیف راجہ کے گرین ہائوس میں جلسہ اور جسن آزادی ریلی گجر خان میں ہسپتال کی تقریب شہر میں چھوٹے موٹے جلسے ایئر پورٹ سوسائٹی میں دو جلسیاں بھی شامل ہے۔اس دوراں فیصل جاوید کسی ایف ایم ریڈیو میں کام کرتے تھے ان کی کوشش رہی کہ یہ کام وہ لے لیں لیکن میرے سعودی عرب جانے تک یہ نہ ہو سکا انہیں شہزاد عربی لائے میں جیسے ہی جدہ پہنچا ایک خبر پڑھی کہ وہ اب ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات ہیں اللہ ترقیاں نصیب کرے۔
مدینہ منورہ کی یاد گار تقریب یوم تاسیس جو برادر جہانزیب نے منعقد کی بھلائی نہیں جا سکتی بعد میں ہر سال یہ تقریب ہم لوگ مناتے برادر سیف اللہ قصوری زہاد اعوان اور میرا گھر تقریبات کا گڑھ بنا رہا۔ اس بار کا یوم تاسیس میرے لئے خاموشی سے اس لئے گزر گیا کہ ماموں زاد اس دنیا سے چلے گئے البتہ دفتر میں سیف اللہ نیازی اور عمر چیمہ نے کیک کاٹا پارٹی کے دیگر لیڈران بھی موجود تھے۔یہ کچھ یاد داشتیں تھیں جو نظر قارئین کی ہیں۔