تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید پاکستان کی سیاست میں جو گند پی ٹی آئی نے آ کربھرا ہے وہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کسی بھیچھوٹی بڑی جماعت نے نہیں بھرا تھا۔یہ کہنے کو تو نام نہاد پڑھے لکھوں کی جماعت ہے۔(پڑھے لکھوں کی نہیں بلکہ فیشن ایبل خواتین کی جماعت ہے جس میں لونڈے لپاڑوں کی بھی بہتات ہے) مگر سیاست میں جس قدر جُہل اس جماعت نے بھرا ہے کسی او رسیاسی جماعت میں تو اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ہان ذوالقار علی بھٹو کے مختصر دور حکومت میں کچھ عرصہ ایسا ہوا تھا کہ ایک مخصوص جماعت کے سربرہ کے خلاف پیپلز پارٹی کے اخبار مساوات نے گندی عورتوں کی تصاویرپر اُس جماعت کے سر براہ کی گردن لگا لگا کر ایک انتہائی بھونڈا کھیل کھیلا تھا۔مگر زبان پھر بھی سُتھری تھی! سوشل میڈیا پر بھیجی جانے والی ایک تصویر میں عمران خان نیازی قادیانیوں کے خلیفہ کے ہاتھ پر بیت کرتا ہوا دکھایا گیا ہے اور ایک اور تصویر میں اسرئیلی وزیر اعظم نتن یاہوکے ساتھ کھڑے مسکرا رہے ہیں۔
ان تصاویر سے قوم کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اس کی پشت پر کس قسم کے لوگ ہیں؟ جو اپنی کو انگلی کے اشاروں سے کیا سمجھا رہے ہیں؟کیپٹن صفدر نے ایسے ہی قادیانیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تھی !پاکستان میں مسلمانوں کی تعداد 97% ہے۔مگر طاقتور اداروں میں قا دیانیوں کی بہت بڑی تعداد بتائی جاتی ہے!کیا یہ پاکستان میں میرٹ کاقتل نہیں ہے؟ کیا پاکستان کی مسلمان قوم کے ساتھ یہ کھلا مذاق نہیں ہے؟میرے وطن میں مسلمانوں کے لئے تو اکثر معاملات میں بھی کوٹہ سسٹم لگایا ہوا ہے ! مگر غیر مسلم چاہے جہاں اور چاہے جتنی تعداد میں پاکستان کے اداروں میں بھرتی کر لئے جائیں کسی کو سوال اٹھانے کی ہمت ہی نہیں ہے !آج قادیانت کا بیت کرنے والاایکformed سیاست دان پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے خواب قادیانیوں کی شہہ پر دیکھ رہا ہے۔
کیا ایسے لوگ جن پر زنا کے الزامات بھی ثابت ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اقتدار کے مالک بنائے جانے کیاہل ہیں؟ہم کہتے ہیں کہ پہلے اس طقیہ باز سے مسلمان ہونے اور قادیانت سے برا ء ت پر مکمل اعتبار حاصل کیا جائے پھر اس کو پاکستان کی سیاست کرنے کی اجازت دی جائے۔مگر ہماری آواز ان کے طاقتور حواریﷺن کیموجود گیمیں صدا بسحراثابت ہوگیہر پاکستانی جانتا ہے کہ اسلام آباد میں دھرنے والوں کی پشت پر کون لوگ ہیں؟مگر عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ بھی ختمِ نبوت کی آڑ لے کر پاکستان کے سیاسی نظام کو دہر ہم برہم کرنے کی غرض سے اہلِ ایمان کو ورغلا رہے ہیں۔
یہ لوگ توہائی کورٹ کے فیصلے تک کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب پیچھے سے ان کی کوئی کمر ٹھونک رہا ہو۔ ان دھرنا بازوں کے بارے میں ،میں حلفیہ کہتا ہوں کہ ہمارے ایک صحافی دوست جو ان دھرنا سازوں کے بھی بہت بڑاے مدح ہیں جو اپنے کالمز اور اور فیس بک پر اُٹھتے بیٹھتے نواز شریف اور اُن کی فیملی پرتبرا بھیجھتے نہیں تھکتے ہیں کا کہنا ہے کہ’’ ان کے ایک مولوی نے انہیں بتایا ہے کہ ۔ہمیں ہر صورت میں دس لاشیں چاہئے ہیں‘‘یقین جانئے میں یہ بات سُن کرسکتے میں رہ گیا اور میں نے موصوف سے کہا یاریہ لوگ مذہب کا لبادہ اُڑھ کر اتنا بھیانک کھیل کھیل رہے ہیں؟اور اپنے ہی طبقے کے لوگوں کی لاشیں گروانا چاہتے ہیں؟بے حد افسوس کا مقام ہے۔ دس افراد کی موت کے معنی ہیں کہ دس خاندانوں کی تباہی! تو موصوف فرماتے ہیں سیاست اسی کا نام ہے!‘‘سیاست پر اختلاف اپنی جگہ مگرخدا گواہ ہے میں تو اُسی وقت سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوں۔ان کی حرکتوں سے اختلافات کے باوجودمیں ان لوگوں کو نبیِ محترم ﷺ کی تعلیمات کا آشنا سجھتا تھا!حکومت بجائے جوش کے ہوش سے کام لیتے ہوئے انہیں اسلام آباد کی سڑکوں پرہی سردی میں سڑنے دے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے ان کی مرادیں بر آتی ہوں۔حکومت پر ان کو ہٹانے کے لئے ایک مرتبہپھر عدالتوں کیجانب سے بھیپریشر آئے گا۔
ملک سے کھلواڑ کرنے والوں نے جس طرح انہیں حلقہ 120 میں اتاراتھا اسی طرح ان ننگِ دین و دنیا کو اس میدان میں اتارا ہے۔ہم کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اس مرتبہ کا الیکشن ان کے لئے لوہے کے چنے ثابت ہونگے اور نواز فیملی کو بھی جان لینا چاہئے کہ اس وقت ’’زمیں ہے دشمن زماں ہے دشمن‘‘اور اب ذہن نشیں رکھیں کہ’جن پتوں پہ تکیہ تھا و ہ ہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ہیں! کیا لوگوں نے عمران خان نیازی کا وہ منظر نہیں دیکھا جس میں نشے میں دھت نیازی نے امین گنڈا پور پر الزام لگانے والے داور کُنڈی کو پی ٹی آئی سے نکالنے کا اعلان کیر دیا۔
اس منظر میں عمران نیازی کی آنکھیں اور آواز اس بات کی عکاسی کر رہی تھیں کہ وہ انتہائی نشے کی حالت میں تھے ۔جو مظلوم لڑکی کی حمایت نہیں بلکہ ظالم کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور مظلوم کے حمائتی داور کُنڈی کو اپنی زر خرید پارٹی سے بھی نکالنے کا اسی بیان میں اعلان کر دیا۔عوام سوچیں ایسے رہنما 22کروڑ عوام کو انصاف دیں گے؟ تب ہی تو ہم کہتے ہیں کہ اس ملک میں ٹی بی کاعلاج تو ممکن ہے مگر پی ٹی آئی کا علاج ناممکن ہے۔ہم با شعور پاکستانیوں سے دست بدستہ اپیل کرتے ہیں کہ پاکستان اور اسکی ترقی کے دشمنوں سے ہوش کے ناخن لیں ۔ان کے ساتھ کھڑے بد کردار مولیوں اور انگلی ہلانے ولی قوتوں سے ہوشیار رہیں یہ میرے ملک میں مذہب اور سیاست کے نام پر انتہائی گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ تمام محب پاکستانی قوتوں کو ان سازشی قوتوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔
ہرپاکستن سے درد رکھنے والا یہ محسوس کر رہا ہے کہ ہر جانب سے سازشوں کا بازار مسلم لیگ کے خلاف گرم ہے۔جس کی نشان دہی سابق رکنِ قومی اسمبلی اور سابق رکنِ پی ٹی آئی وسینئر سیاست دان جاوید ہاشمی ایک مدت سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ایک مرتبہ پھر انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ ’’جمہوریت اور آئین کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں ۔تمام سیاست دانوں کو متحد ہو جانا چاہئے۔ بلوچستان میں بیرونی مداخلت کا ماحول کس نے پیدا کیا ہے؟سیاست دان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔نواز شریف سے بھی ان کے دور اقتدار میں غلطیاں ہوئی ہیں۔لیکن ان کے خلاف اقدامات کو بھی درست نہیں کہا جا سکتا۔مجھ سے کہا جاتا ہے کہ کیا جاوید ہاشمی کی نوازشریف سے محبت جاگ اُٹھی ہے؟تو میں کہتا ہوں کہ جو اقدامات کئے گئے ہیں اُن سے جو لوگ نواز شریف سے نفرت کرتے تھے ان کی بھی نوازشریف سے محبت جاگ اٹھی ہے‘‘ انہوں نے پیپلز پارٹی جو آج کل اسٹابلشمنٹ کی حمایت میں سرگرداں ہے سے متعلق کہا کہ ’’پیپلز پارٹی کا رستہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے اسے آئندہ الیکشن میں امیدوار ہی نہ ملیں‘‘ہم کہتے ہیں کہ اس جماعت کو اسٹابلشمنٹ کے گُن گانے کے بجائے سینہ تان کے جمہوریت کے حق میں سینہ سِپر ہو جانا چاہئے۔ورنہ مستقبل کی سیاست میں لگتا ہے ۔ تمہاری داستان تک نہ ہوگی سیاست کی داستانوں میں!
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbirahmedkarachi@gmail.co