اسلام آباد (جیوڈیسک) سیاسی بحران پر قابو پانے کے لیے فوج سے مدد کی درخواست پر تنازعے کا شکار حکومت کو جمعہ کے روز کو اس وقت ایک اور جھٹکا لگا جب آئی ایس پی آر نے وضاحت جاری کی کہ درحقیقت حکومت نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے احتجاجی جماعتوں سے مذاکرات کے لیے “سہولت” فراہم کرنے کے لیے کہا تھا۔
اگرچہ دونوں اطراف کے سیاستدانوں نے جمعہ کا پورا دن ایک دوسرے پر فوج کو اس بحران میں مداخلت کی دعوت دینے کا الزام لگاتے ہوئے گزارا، تاہم فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج حکومت اور تحریک انصاف و عوامی تحریک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتی رہے گی۔ “فوج ثالث کا کردار جاری رکھے گی اور احتجاجی جماعتوں کے حکومت کے ساتھ کسی بھی معاہدے پر عملدرآمد کی ضمانت دے گی۔
ذرائع نے حکومت کی جانب سے فوج کو دیے جانے والے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پہلا ہدف دونوں اطراف کے درمیان تعطل کے شکار مذاکرات کی دوبارہ بحالی ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ احتجاجی جماعتوں کے اندر حکومت پر بداعتمادی کی جڑیں بہت گہری ہیں اور وہ اس پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں، تاہم فوج دونوں اطراف کے درمیان طے پانے والے کسی بھی معاہدے پر عملدرآمد کی ضمانت دے گی۔
جمعے کی صبح قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے آئی ایس پی آر سے احتجاجی جماعتوں سے رابطے پر وضاحت مانگی تھی، جس پر میجر جنرل عاصم باجوہ نے جمعے کی شام ٹوئیٹر پیغام میں بتایا “گزشتہ روز وزیراعظم ہاﺅس میں ملاقات کے دوران آرمی چیف سے حکومت کی جانب سے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔”
خیال رہے کہ نواز شریف نے جمعرات کو جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تھی جس میں بحران کے حل کے لیے مدد کے لیے کہا گیا تھا، وزیراعظم کی درخواست پر ہی آرمی چیف نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور پی اے ٹی کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری سے جمعرات کی شب ملاقاتیں کیں، جس کے بعد دونوں رہنماﺅں نے اپنے حامیوں کو بتایا تھا کہ فوج نے ضامن اور ثالث کے کردار کا وعدہ کیا ہے۔ مگر قومی اسمبلی میں جمعے کو حکومت کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف نے مؤقف اختیار کیا “فوج کو ثالثی کے کردار کے لیے نہیں کہا گیا اور نہ ہی ہم نے ایسی کوئی درخواست کی۔
مگر آئی ایس پی آر کے سربراہ کے ٹوئیٹ کے بعد حکومت کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان آگے آئے اور انہوں نے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے ذاتی سیاسی ایجنڈے کے لیے فوج کو استعمال کررہے ہیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے فوج کے کردار پر کنفیوژن دانستہ طور پر پیدا کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا “حکومت نے فوج کو سہولت کار کی ذمہ داری دی تھی اور اس کے پس پردہ اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے ان افواہوں کو مسترد کردیا کہ سول اور فوجی قیادت کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔
وفاقی وزیر نے اس امید کا اظہار کیا کہ سیاسی بحران کا حل مذاکرات کے ذریعے نکال لیا جائے گا۔ دوسری جانب حکومتی ذرائع نے چوہدری نثار کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ کی جانب سے جمعے کی رات جاری ہونے والا بیان حکومت سے “مشاورت” کے بعد جاری ہوا۔