تحریر : شہزاد حسین بھٹی ملک میں جُوں جُوں نئے انتخابات کی تاریخ نزدیک آ رہی ہے سیاست کے تمام پُرانے کھلاڑی اپنی اربوں روپے کی کرپشن بچانے کے لیے سر جُوڑ کر بیٹھ چکے ہیں، ان میں حکمران جماعت ن لیگ اور پی پی پی سرفہرست ہیں۔ دونوں جماعتوں نے اپنی ذیلی اتحادی جماعتوں کو بھی متحرک کر رکھا ہے اور نئے نئے انتخابی منصوبوں پر غور شروع کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ تمام مذہبی جماعتوں کو اَکٹھا کر کے ایم ایم اے کی صورت میں اک نئے اتحادسے کے پی کے میں عمران خان کا راستہ بھرپور طریقے سے روکنے کی کوشش کریں۔اس سلسلے میں مولانافضل الرحمٰن کی آصف علی زرداری اور شہباز شریف سے حالیہ ملاقات اس منصوبہ بندی کا حصہ تھی۔ منصوبے کے تحت پی پی پی اورن لیگ درپردہ آپس میں مکمل طور پر ایک دوسرے کی کرپشن بچانے کے لیے اک دوسرے کی مدد کریں گے، بلکہ کر رہے ہیں۔ سندھ میں ڈاکڑ عاصم اور ماڈل ایان علی کے معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ چوہدری نثار علی خان تھے جو بڑے احسن طریقے سے ہٹا دی گئی۔ سب کو یادہو گا کہ اسکا اظہار چوہدری نثار علی خان نے برملا کیا کہ پی پی پی کے سرکردہ لوگوں نے ان سے کہا کہ وہ ڈاکڑ عاصم اور ایان علی کے معاملے میں نرمی دیکھائیں تبی پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان دوستی برقرار رہ سکتی ہے۔
چوہدری نثار علی خان کے جانے کے بعد وہ تمام رکاوٹیں ہٹ چکی ہیں جو دونوں سیاسی جماعتوں میں وقتی خلیج بنی ہوئی تھیں۔ آصف علی زرداری کے خلاف بھی نیب میں تمام کیس خفیہ ڈیل سے طے ہو چکے ہیں اب پی پی پی اپنی وفاداری کا کہا ں تک ثبوت دیتی ہے آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم تمام سیاسی جماعتیں اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر عمران خان اقتدار میں آگئے اور انہوں نے احتساب کا جو نعرہ لگایا ہے، اس پر کار بند رہے تو تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین بہت بڑی قیامت سے دوچار ہو جائیں گے اور ان کے اربوں روپے جو غیر ملکی بنکوں میں پڑے ہیں وہ غیر محفوظ ہو کر رہ جائیں گے۔ مسلم لیگ ق بھی درپردہ یہ نہیں چاہتی کہ عمران خان اقتدار میں آئیں کیونکہ ان کے خلاف بھی نیب کے کیسز چل رہے ہیں تاہم حکمران جماعت کی طرف سے ان کو بھی خصوصی ریلیف مل رہا ہے۔
سب سے خطرناک سازش عمران خان کے خلاف جاری ہے وہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے قریبی عزیزوں پر مشتمل سیاسی کھلاڑی عمران خان کی ٹیم میں شامل کر چکی ہیں اور مزید کرینگی جو آئیندہ الیکشن کے بعدعمران خان کو کرپشن کے خلاف کسی بڑی کاروائی سے روکنے کے لیے لگام دے کر رکھیں گے اور ان کو ایسے مشوروں سے نوازیں گے کہ جن سے ان کی سیاسی ساکھ کوعوام میں بھرپور طریقے سے گرایا جا سکے اور حسب روائیت ستر سالوں سے جو لوٹ مار کا کلچرسیاسی جماعتوں نے متعارف کروا رکھا ہے اسکو جاری و ساری رکھا جا سکے۔ گو کہ اس وقت عمران خان کا عوام میں مقبولیت کا گراف انتہائی اُونچا نظر آ رہا ہے پھر بھی تمام سیا سی پرانی جماعتیںپُرامید ہیں کہ وہ اپنی محلاتی سازشوں کے زور پر اپنا ہدف ضرور پورا کرلیں گی اور عمران خان کو کسی صورت سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرنے دینگے۔
پیش بندی کے طور پر پی پی پی اور ن لیگ ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری جاری رکھیں گی جس سے عوام میں یہ تاثر جائے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف روائیتی حریف ہیں تاہم موجودہ سوشل میڈیا اور الیکڑانک میڈیا نے عوا م کو اتنا باشعور بنا دیا ہے کہ وہ دونوں جماعتوں کے اصل چہروں کو پہچان چکے ہیںاور آئیندہ الیکشن میں انکی تمام تدبیریں ناکام ثابت ہو نگی۔ بعض تجزیہ کار اس بات کا بھی عندیہ دے رہے ہیں کہ پی پی پی سندھ میں بھی بہت بُری طرح ناکام ہو گی کیونکہ سندھ میں بھی کرپشن اور لوٹ مار کا پیسہ”بلاول ہائوس” میں جانے کی خبروں نے پی پی پی کی ساکھ کو بُری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ آئیندہ الیکشن تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہی ہو گا جو آنے والے حالات و واقعات کے پیش نظر حقیقی صورت میں سامنے آ سکے گا۔ ختم نبوت بل میں تبدیلی کا پیش خیمہ بھی مسلم لیگ ن ہی کو بھگتا پڑے گا کیونکہ مذہبی جماعتیں اس معاملہ کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھا رہی ہیں۔