لاہور (جیوڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما عبدالعلیم خان کی گرفتاری ملکی سیاسی منظر نامے پر ایک نئی بحث کی وجہ بن گئی ہے۔ متعدد حلقے اس پیشرفت کو مختلف انداز میں دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ڈپٹی چیف منسٹر کی شہرت رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور پنجاب حکومت کے سینیئر وزیر عبدالعلیم خان کی گرفتاری سے بحران کی سی صورتحال بنتی جا رہی ہے۔ نیب کی طرف سے پہلی حکومتی شخصیت کی گرفتاری نے پاکستان تحریک انصاف کے زیر تفتیش رہنماؤں میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔
صوبائی دارالحکومت کے سیاسی حلقے عبدالعلیم خان کی گرفتاری کو اپنے اپنے انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بابر اعوان، جہانگیر ترین اور اعظم سواتی کے بعد عبدالعلیم خان کے خلاف ہونے والی تازہ احتسابی کاروائی نے وزیراعظم عمران خان کے ان دعوؤں پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں، جن کے مطابق وہ بہترین اور شفاف لوگوں کی ٹیم بنانے کی بات کیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وفاقی وزیر پرویز خٹک، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا (کے پی کے) محمود خان اور صوبائی وزیر عاطف خان کے خلاف بھی نیب کی تحقیقات جاری ہیں۔
سوشل میڈیا پر بعض لوگ کہ رہے ہیں کہ نیب نے علیم خان کو گرفتار کرکے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے اختیارات بحال کر دیے ہیں لیکن پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما میاں جاوید لطیف کا خیال ہے کہ ناقص کارکردگی کی وجہ سے مسلسل تنقید کا نشانہ بننے والے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو طاقتور حلقوں کی طرف سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس عہدے کے لیے عبدالعلیم خان کو گرفتار کروا کر چوہدری پرویز الہی کو وزیرا علیٰ بنوانے کے لیے راستہ صاف کروایا جا رہا ہے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا کہ کہ آنے والے دنوں میں عاصمہ ارباب، بابر اعوان اور پرویز خٹک سمیت حکومت اور اپوزیشن کے کئی دیگر رہنماوں کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے حلقے ان تمام باتوں کی تصدیق کرنے سے انکاری ہیں اور ان کا موقف ہے کہ ان کے رہنما نے گرفتاری کے فورا بعد استعفیٰ دے کر ایک اچھی اور قابل تعریف مثال قائم کی ہے اور پاکستان تحریک انصاف احتسابی عمل کی حمایت کرتی ہے اور اس حوالے سے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن اس سارے بیانیے کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاثر یہ ہے کہ نیب نے اپوزیشن کے سیاستدانوں کی گرفتاری کے بعد حساب برابر کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کو دھر لیا ہے۔
اس صورتحال میں پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے مابین تازہ ترین رابطوں میں نیب کے قوانین میں مناسب تبدیلیوں پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پارلیمان کی سطح پر پیش رفت کے لیے حتمی بات چیت جاری ہے۔
پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ پنجاب کے ’ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ‘ عبدالعلیم خان کی گرفتاری سے پی ٹی آئی کو کافی نقصان ہوگا۔ ان کے بقول نیب کا یہ اقدام اپنے اوپر ہونے والی تنقید کے پیش نظراپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے کیونکہ نیب نے پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں موجود بدعنوان عناصر کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ پشاور میٹرو سمیت کے پی کے میں کئی ایسے منصوبے ہیں، جن پر نیب کو کارروائی کرن چاہیے لیکن وہ پوری قوت کے ساتھ صرف اپوزیشن کے سیاستدانوں کا پیچھا کرتا رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ یہ کہنا کہ ’دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے عوامی توجہ ہٹانے کے لیے عبدالعلیم خان کو گرفتار کروایا گیا ہے‘ دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں سن 2018 کے انتخابات سے پہلے اور بعد میں نیب کا رول متنازعہ رہا ہے، اس ادارے نے طاقتور حلقوں کے اشاروں پر سیاسی مقاصد کے لیے کام کیا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون دانش مندی سے کام لیتے اور باہمی رضامندی سے چلتے تو نیب کے غیر منصفانہ رویوں سے بچا جا سکتا تھا۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما میاں محمود الرشید نے بتایا کہ عبدالعلیم خان کی گرفتاری سے پی ٹی آئی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ اس صورتحال میں اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ احتساب کا عمل صرف اپوزیشن تک ہی محدود نہیں ہے۔ ان کے بقول جو لوگ عملی سیاست میں ہوتے ہیں ان سے غلطیاں بھی سرزد ہو سکتی ہیں۔
محمود الرشید نے مزید کہا، ’’اگر پوری ٹیم میں سے صرف چند ایک لوگوں پر انگلیاں اٹھیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ عمران خان کی ساری ٹیم ہی بری ہے۔ علیم خان نے استعفیٰ دے کر بڑی اچھی مثال قائم کی ہے۔ پنجاب حکومت ان کی جگہ کسی اور کو سینئر وزیر بنانے کا نہیں سوچ رہی کیونکہ آئین میں سینئر منسٹر کا کوئی عہدہ نہیں ہے‘‘۔
پاکستان تحریک انصاف کی ایک رہنما عندلیب عباس نے بتایا کہ جس طرح تحریک انصاف کے لیڈروں نے الزامات کے بعد اپنے عہدوں سے استعفے دے کر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے اس کی مثال ملک کی ستر سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان کے مطابق پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے حوالے سے ملنے والی تبدیلی کی خبروں میں صداقت نہیں ہے۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اداروں کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے نیب کے قوانین میں بھی تبدیلیاں لانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ کیا عبدالعلیم خان کے خلاف ہونے والی کارروائی اپنے منطقی انجام تک پہنچتی ہے یا نہیں۔