پی ٹی آئی حکومت جو ماضی کی ن لیگ حکومت پرسب و شتم ،طعنوں اور گالی گلوج عوامی خدمت کے حوالے سے کیا کرتی تھی۔ایک مہینے میں ہی اپنی عوامی کار کردگی کا پول منہگائی کے میزائل مار مار کر کھول رہی ہے۔ایک دن پہلے عوام پر گیس کی قیمتیں 143فیصد تک بڑھا کر اپنی عوام دوستی کا پول خود ہی کھول کے رکھ دیا ہے۔انہوں بتدریج گیس کی قیمتیں مختلف سیکٹرزمیں بڑھا کرتمام سیکٹرز کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ عوام پر ہر جانب سے مہنگائی کے میزائل فائر کر کر عوام کو بے حال کر دیں۔ تاکہ اس ابتلا کی وجہ سے پی ٹی آئی کی بیڈ گورننس پر عوام سوال اٹھا ہی نہ سکیں۔ان لوگوں تو نے آتے ہی عوام پر مہنگائی کے میزئل ہر جانب سے برسوانے شروع کئے ہوئے ہیں۔یہ ہیں عوام کے سچے خادماور نئے پاکستان کے گدھا سوار ۔جنہوں نے کے الیکٹرک کیلئے گیس کی قیمت میں47فیصد اضافہ کر کے کراچی کے لوگوں کو بے حال کرنے کا مکمل عزم ظاہر کر دیا ہے۔ کیا یہ اداراعوام کو موجودہ ریٹ پر بجلی دے گا؟یہ ہے نیا پاکستان جو ہتھوڑے اور بوٹ کمبینشن سے بنایا جارہا ہے۔بھوکے ننگے عوام کے جسم سے یہ لوگ کپڑے بھی کھینچ لیناچاہتے ہیں۔
ماہرِمعیشت محمد سہیل کا کہنا ہے کہ گیس قیمتوں میں اضافہ اس وقت حکومت کا سب سے برا فیصلہ ہے۔عوام اور انڈسٹریز کے لئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ یکایک تلخ گھونٹ ہے۔ہر شخص جانتا ہے حکومت گیس کی قیمتیں بڑھا کے عوم کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔دوسری جانب حکو مت کا منی بجٹ،فنانس سپلی مینیٹری ترمیمی بل (2018)میں سابقہ حکومت پر جھوٹے بہتان لگا لگا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس نے بھی عوامی مشکلات کو کم کرنے کی بجائے عوام کی مشکلات بڑھادی ہیں۔سابق وزیرِ خزانہ مفتیٰ اسماعیل کا کہنا ہے کہ جب ن لیگ حکومت میں آئی تو بجٹ خسارہ 8.2 تھا اور یہ بات بھی من گھڑت ہے کہ ہم نے بجٹ میں خرچہ ڈھائی سو ارب کم بتایا تھا۔اسد عمر بتائیں کہ ہم نے ڈھائی سو ارب روپے کا خرچہ کہاں کم دکھایا تھا؟ہماری ایمنسٹی اسکیم کی وجہ سے ملک میں دو ہزار ارب روپے ظاہر ہوئے۔جس کی وجہ سے اس سال ٹیکس دہندگان کی تعدادمیں بھی اضافہ ہوا ہے۔اسد عمر نے اکاؤنٹنگ چا ل چلنے کی کوشش میں کہا ہے کہ پاور سیکٹر کو دو سوارب گورنمنٹ کی بیلنس شیٹ پر نہیں۔پاور ہولڈنگ کی بیلنس شیٹ پر دیئے گئے تھے۔ گیس کی قیمتیں بڑھانے سے مہنگائی بے تحاشہ بڑھ جائے گی اور افراطِ زر میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ اُورسیز پاکستانیوں کا بہانہ بنا کر حکومت آٹو مینو فیکچررز اور لینڈ ڈیولپرزکو فاتح بنا کر پاکستان کے ٹیکس دہندگان کو شکست خوردہ بنا دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی ہم پر بلاوسطی ٹیکس لگانے پر تنقید کرتی تھی۔لیکن نئے پاکستان میں بلاواسط ٹیکس ہلال ہو گئے ہیں۔لگتا ہے پی ٹی آئی حکومت آئی ایم ایف کی جانب قدم بڑھا رہی ہے ۔موجودہ حکومت نے عوام پر 25ارب تک کے ٹیکس بڑھائے ہیں۔ جو نہایت تکلیف دہ امر ہے۔اسد عمر کا گذشتہ حکومت پربجٹ میں 900ارب روپے کم دکھانے کاالزام سیاسی ہے۔
گیس کی قیمتوں میں 147فیصدتک اضافے پر سینٹ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف حمزہ شہبازشریف نے کہا ہے کہ انتخابات سے پہلے غریبوں کو سُہانے خواب دکھانے والے،حکومت میں آتے ہی تبدیل ہوگئے ہیں۔مہنگائی کا کوڑا برساتے ہوئے اسد عمر کو اپنے ماضی کے اعلانات یاد نہیں رہے؟اب قوم عمران نیازی کا اصل چہرہ دیکھے گی۔سات سلیبر زکی آڑ میں تبدیلی کے دعویداروں نے چھپنے کی ناکام کوشش کی ہے۔پی ٹیٰ آئی حکومت کے ریکارڈاضافے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نئے پاکستان کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس کھوکھلے دعووں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ گیس کی بڑھائی گئی قیمتوں کو فوری واپس لیا جائے۔مفتیٰ اسماعیل کا منی بجٹ کے بارے میں کہنا ہے کہ حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کو ڈیڑھ سو ارب کا ٹیکہ لگادیا ہے۔ہماری حکومت نے دو لاکھ سے زائد آمدنی والوں پر ٹیکس کم کیا تھا۔لیکن نئے پاکستان میں وہ پھر بڑھا دیا گیا ہے۔
ضمنی بجٹ پر پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات و سینیٹر مولا بخش چانڈیونے ردِعمل دیتے ہوئے کہاہے کہ عمران کی ایک ماہ کی حکومت نے عوام کی چیخیں نکلوادی ہیں،سبزباغ دکھانے والوں نے آتے ہی ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ایک طرف مہنگائی بڑھائی جا رہی ہے تو دوسری طرف ترقیاتی بجٹ کم کئے جا رہے ہیں۔عمران حکومت معیشت کا بیڑا غرق کر دے گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سلیکٹیڈ حکومت کی کوئی معاشی پالیسی ہے نہ خارجہ اور داخلہ پا لیسی ہے۔ایک ماہ کے دوران حکومت نے پورا زور سویلین مناسب کو بے توقیر کرنے اور بھینسوں اور گاڑیوں کی نیلامی کے ڈرامے پر لگایا۔سادگی کی شو بازی سے مملکتیں نہیں چلا کرتی ہیں۔اور کہتے ہیں کہ ہم نے عوام پر تو بوجھ ڈالا ہی نہیں ہے۔
معاشی تجزیہ کار اشفاق تولہ کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ٹیکس رفارمز کمیشن کی اچھی تجویزجس میں کہا گیا تھا کہ ججز، جرنیل اور وفاقی وزراء کو سیکنڈ شیڈول آف انکم ٹیکس جو مراعات دی گئیں وہ بھی ختم کی جائیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت نے اس معاملے کو فرا موش کیا ہوا ہے۔ ہم کفایت شعاریکی مہم میں حکومت کے ساتھ ہیں۔ان کو بھی اپنیمراعات کٹ کر کے یکجہتی کا اظہار کرنا چاہئے۔سراج قاسمتیلی کا کہنا ہے کہ ایف بی آر ٹیکس طچوروں کو بچاتا ہے۔اسمیں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں نکالنا ضروری ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک طرف عوام کو ریلیف دیا جا رہا ہے تودوسری طرف چیزیں مہنگی ہونگی۔
ڈانڈوں کے سہارے بنائی گئی پی ٹی آئی کی حکومت جس کو عوم کی مکمل حمایت کا دعویٰ ہے،مگر ہے نہیں۔اس کو چاہئے جس طرح سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی ٹیم کے 60فیصد کھلاڑی اپنی حکومت میں جمع کر بیٹھی ہے۔ دو چار سرون آفیسرز کو بھی اورجوڈیشری کے چند خاص سلیکٹیڈ لوگوں کو بھی حکومت کا حصہ بنالیتی تو ۔اس کو نہ تو گرنے کا خوف باقی رہتا اور نہ ہی قانونی جنگ میں شکست کا سامنا ہوتا۔راوی چین ہی چین لکھ دیتا۔یہ لوگ ن نواز حکمت پر جن امور پر انگلی ٹھایا کرتے تھے ۔اُ ن ہی امور کو وہ تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔نیا پاکستان تو بنا نہیں مگر پرانے پاکستان کے معاملات کے بخئیے ادھیڑ ڈالنے میں یہ پوری ٹیم لگی ہوئی ہے۔ پہلے گیس کی قیمتوں پر ڈاکہ ڈالا گیا اس کے بعدہر چھوٹی سے چھوٹی چیز پر ٹیکسوں کی بھر مار لگا کر کہا جا رہا ہے کہ عوام پر اس کے برے اثرات نہیں ہونگے۔ یہ تو نوشتہِ دیوار ہے کہ حکومت عوام کی کمر توڑنے پر کمر بستہ دکھائی دیتی ہے۔
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 [email protected]