اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) فٹ بال کے میدان میں کبھی غور سے دیکھا ہے، جب کھلاڑی پرفارم نہ کر پائیں تو سب سے زیادہ جاں بہ لب جو کوئی ہوتا ہے وہ ٹیم کا کوچ ہوتا ہے۔ سیلکٹرز پیچھے پہلو بدل رہے ہوتے ہیں اور ٹیم کا مالک سر پکڑے بیٹھا ہوتا ہے۔
میدان ِ عمل میں کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ کھلاڑیوں کا آپسی تعلق یا پھر ٹیم کے کپتان کی بے بسی، کچھ بھی نہیں چھپتا۔ جان بوجھ کر فٹ بال کے ساتھ ٹائم پاس کرتا کھلاڑی یا پھر کمزور دفاع ایسا کہ جو چاہے گول کر کے چلتا بنے۔
وہ عوام جو تماشائی بنے پورا کھیل دیکھتے ہیں، ان میں ٹیم کو دل و جان سے سپورٹ کرنے والے بھی ہوتے ہیں، کچھ کھلاڑیوں کے پاگل فین ۔ ٹیم ایک بار سر جھکانے پر مجبور کرے، ان کے چاہنے والے کر لیتے ہیں۔ ٹیم پھر بھرے میدان میں ناک کٹوائے یہ چاہنے والے ایک موقع اور دیتے ہیں۔ لیکن ٹیم محض اپنی ہینڈسم پرسنالٹی اور کلر اسمائیل دکھانے میدان میں اترے گی تو یہ تماش بین بھی تماشہ بنانے میں دیر نہیں کرتے۔
تحریک انصاف کی ٹیم کے ساتھ وہی ہو رہا ہے۔
مہنگائی کی اس دھماچوکڑی میں عوام احتساب کا نعرہ بھول گئی ہے۔ دال، سبزی، گھی، چینی کی قیمتوں سے شروع ہونے والے گلے شکوے اب پٹرول کی قیمت اچانک بڑھانے پر لعنت ملامت تک جا پہنچے ہیں۔ عوام کی حالت ان سپورٹرز کی طرح ہو گئی ہے، جو اپنی ٹیم کو پوجتے پوجتے اس حد تک آگئے ہیں کہ اب ان بے سمت لیڈرز نما کھلاڑیوں کو دیکھ کر خالی بوتلیں اچھالنے پر تیار ہیں۔ انڈے ٹماٹر مہنگے بڑے ہیں، سو وہ پھینکنے سے رہے۔
بہت سے ایسے سوشل میڈیا اسٹارز جو کبھی کپتان کی کپتانی کے دم بھرتے نہیں تھکتے تھے اب تحریک انصاف کی ایسی شاندار ٹیم پرفارمنس دیکھ کر بغلیں جھانک رہے ہیں۔ ادھر عوام زخم کھائے بیٹھی ہے۔ ادھر پی ٹی آئی میں یہاں وہاں سے الیکٹیبلز کے نام پر جمع کیے گئے ممبران اسمبلی ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔
الیکشن جیتنے کے لیے تحریک انصاف نے ایسے افراد کو بھی پی ٹی آئی میں ویلکم کیا تھا، جو جدی پشتی سیاست میں کامیاب اور پارٹی میں دھڑے بندی کرنے کے فن میں طاق تھے۔ آج پی ٹی آئی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہی ایسے سیاستدانوں کو نتھ ڈال کر رکھنا ہے، جن کی سیاست ان کے حلقے کے گاوں اور تحصیلوں کی ذات برادریوں کے گرد گھومتی ہے۔ یہ پی ٹی آئی اچھی طرح جانتی ہے کہ ان ممبران اسمبلی کی سیاست خان صاحب کی کرشماتی شخصیت کے بل بوتے پر نہیں کھڑی۔
اس لیے آئے دن آپ یہ چہ مگوئیاں سنتے رہتے ہیں کہ فواد چودھری تحریک چھوڑ گئے، کبھی مارکیٹ میں اڑائی جاتی ہے کہ ندیم افضل چن پارٹی کو ٹاٹا بائے بائے کر گئے۔ باوجود یہ کہ شاہ محمود قریشی وزیراعظم کے بیانات پر واہ واہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے مگر آج بھی پارٹی کے معمولی کارکن سے لے کر انصافی سوشل میڈیا ایکٹویسٹ تک بہت سوں کو شاہ صاحب کی نیت کھوٹی نظر آتی ہے۔
پی ٹی آئی کا دوسرا سر درد وہ کلف زدہ کپڑوں میں ملبوس آزاد سیاستدان ہیں، جو بڑے کام کے سہی، بڑے نام کے نہیں۔ جب جہانگیر ترین عمران خان کی حکومت کو کھڑا کرنے کے لیے ان کمزور سہاروں کو جہاز میں بٹھا بٹھا کر لارہے تھے، اس وقت فضاء میں دو فریقین کی خواہشیں پنپ رہی تھیں۔ ایک طرف عمران خان، جو ان اتحادیوں کو حکومت بنانے کا نمبر سمجھ رہے تھے، تو دوسری طرف وہ اتحادی جو اپنی اور اپنے حلقے کی خواہشات کی لمبی فہرست بنا کر لائے تھے۔ اگرحکومت نے وش لسٹ مسل کر کوڑے دان میں ڈالی تو یہ آزاد ممبران کے نمبر بھی ایک ایک کرکے گرتے رہیں گے۔
پی ٹی آئی سے ہاتھ ملا کر پچھتانے والوں میں تیسری قسم ہے ان اتحادی جماعتوں کی، جو حکومت بنتے ہی روٹھنے منانے کے موڈ میں آ جاتی ہیں۔ ایم کیو ایم نے اس شدید مقابلے بازی میں نمایاں مقام یوں حاصل کیا کہ یہ آئے دن روٹھنے اور پھر اک ملاقات اور اک وزارت ملنے کے بعد خود ہی مان جانے کی پرانی روش پر چل رہے ہیں۔
ایم کیو ایم حال مست ہے، اس کی ڈیمانڈز کے کیا کہنے۔ ق لیگ پچھلے ایک سال سے شاید اچھا بارگین کر پائی ہے، اس لیے چودھری برادران آنچ کبھی دھیمی کبھی تیز رکھتے ہیں۔ لیکن بلوچستان سے اتحادیوں کا موڈ کچھ زیادہ ہی آف ہے۔ یہ کہتے ہیں عزت نہیں ملی، کئی کئی مہینے انتظار کر کے بھی خان صاحب سے ملاقات نہیں ہو پاتی۔ کہہ وہ پہلے ہی چکے ہیں کہ ‘ ہم تو اتحادی ہیں، ہمارا کیا ہماری راہیں کھلی ہیں۔‘
اتنے ڈھیر سارے مانگے تانگے کے اتحادی، تیرے میرے سے کہہ کر لائے گئے آزاد ممبران، کہیں مطلب کے یار اور کہیں غرض کی دوستی۔کچی بنیادوں پر کھڑی حکومت کی کرسی کو آپ نے غیر منتخب افراد کی نااہلیوں سے لاد دیا ہے۔ کرسی کے پائے ہل رہے ہیں،کہیں یہ دھڑام سے منہ کے بل نہ آ گرے۔ ٹھونک پٹخ اب ضروری ہوگئی ہے جناب !