جو تھا نہیں ہے جو ہے نہیں ہو گا

 Shah Mehmood Qureshi

Shah Mehmood Qureshi

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما سابق وفاقی وزیر خاجہ شاہ محمود قریشی نے بہا ولپور میں جلسہ سے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ موجودہ حکمران گھر جانے والے ہیں اور حیران کن جملہ معنی خیز انداز میں کہا ہے ” جو تھا نہیں ہے۔۔۔ جو ہے نہیں ہوگا”شاہ محمود قریشی کی بات درست ہے۔ یقینا قریشی صاحب نے یہ جملہ موجو دہ حکمرانوں کے بارے میں ہی ادا کیا ہے سمجھنے والے خود بخود سمجھ چکے ہیں۔” جو تھا نہیں ہے۔

جو تھا نہیں ہے۔۔۔ جو ہے نہیں ہوگا”اس کے بہت معنی نکلتے ہیں لیکن قریشی صاحب کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو کل اقتدار میں تھا ان کا اشارہ پرویز مشرف کی طرف بھی ہے اور اپنی سابق جماعت کے سربراہ آ صف علی زرداری کی اقتدار بھی ہے۔ ان کا اقتدار ماضی بن چکا ہے کل تھا آج نہیں ہیں ۔ تو یہی مطلب ہے کہ” جو تھا نہیں ہے”۔اور ” جو ہے نہیں ہوگا” سے مراد ہے میاں نوازشریف کی اقتدار جو آج ہے مگر کل نہیں رہے گا ۔ختم بھی ہو جائے گا۔

بحرحال :قارئین حضرت ! اگر دیکھا جائے یہ جملہ بہت معنی ٰخیز اور گہری بات ہے ۔ ”جو تھا نہیں ہے۔۔۔ جو ہے نہیں ہوگا’ ”جو تھا نہیں ہے” کو ہم بنی نو ع انسان کی مثال میں لے لیں تو کروڑںلوگ آئے اور چلے گئے ۔،جن میں غریب بھی تھے ، امیر بھی تھے ، فقیر بھی تھے ،مسکین بھی تھے ، بادشاہ بھی تھے ،بہت کمزور لوگ بھی تھے ،بہت ظالم طاقت ور بھی، لالچی اور سخی بھی تھے ،بے رحم بھی تھے اور مہربان بھی تھے۔ مگر ا ُ ن میں سے اب کوئی نہیں ہے۔البتہ وہ لوگ ابھی زندہ تصور ہوتے ہیں ۔جن کے اعمال اچھے تھے۔ درحقیقت وہ ہیں نہیں بلکہ اُ ن کی کردار نے اُ ن کو زندہ رکھا ہے۔ جیسے کے مشہور سخی حاتم طائی بھی زندہ مثال ہے ، سلطان صلاح الدین ایوبی بادشاہ بھی لوگوں کی زبان پر بار بار آتا ہے تاریخ نے نہ مٹنے والی فہرست میں اِ ن کا نام لکھا ہے ، فرعون نمر ور جیسے طاقت ور ظالم حکمران بھی تھے۔ ان کا بھی نام ضرورہے لیکن بُرے الفاظوں میں لکھا ہے ، بُرے الفاظوں میں ہی یاد ہوتے ہے۔ دنیا میں اربوں کی تعداد میں لوگ پیدا ہوتے گئے مرتے بھی گئے ہر انسان اپنی اعمال کا مالک خود تھا ”جو تھا اب وہ خود نہیں ہے بلکہ اُن کا اعمال نامہ موجود ہے۔

جو ہے نہیں ہوگا” کا مطلب یہ یہی ہے کہ اس وقت بھی ہر طرح کے لوگ ہر جگہ موجود ہیں ۔ کوئی غریب ہے تو کوئی امیر، کوئی ظالم ہے تو کوئی بہت مظلوم، کوئی عادل ہے تو کوئی نا انصاف، کوئی کنجوس ہے تو کوئی بہت سخی، کوئی امن پسند ہے تو کوئی دہشت پسند۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں بھی جو بھی ہے، جس حال میں ہے ،جس جگہ ہے، جس مسئلے یا تکلیف میں ہے اس وقت جوہے شاید” جو ہے نہیں ہوگا۔

ہم سب مرتے جائیں گے نئی نسل آتی جائے گی یہ سلسلہ کب اور کیسے ختم ہو گا یہ تو اللہ رب العالمین خالق کائنات ہی بہتر جاننے والا ہے۔ ہماری موجودہ پوزیشن جیتے جی بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ جس طر ح ایک بلوچ دانشور سابق وزیر اعلی ٰ بلوچستان نواب اسلم خان رئیسانی نے میڈیا کہ کسی ایک دفعہ ایک سوال کے جواب میں ایک تلخ حقیقت بیان کی تھی کہ ” جو غریب ہے وہ پاکستانی سیاست میں آجائے اس قسمت لگ گیا تو وزیر ہے نہیں تو فقیر ہی ہے ” بالکل پاکستانی سیاسی سلسلہ میں یہی حقیقت ہے ۔نواب صاحب کی دانشمندانہ جواب کو بے وقوف میڈیا نے مزاحیہ انداز میں لے کر اس بات کی حقیقت لوگوں کو سمجھنے سے پہلے ہی دبا دیا تھا۔ کہنے کا مقصد ہے کہ آ ج کے سیاست دان ، بیو رو کریٹس ، افسران ، میڈیا کے ہیرو حضرات سب کے سب یہ یاد رکھیں کہ ان کو موجودہ بہترین پوزیشن آف موومنٹ کبھی بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ اختیارات کم یا ختم بھی ہو سکتے ہیں۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے کہ ”جو ہے نہیں ہوگا” اگر نہیں ہوا تو انھیں بہت احساس ہو گا۔ تب اپنی پوزیشن پر انھیں یاد ضرور آئے گی اور اگر غلط اعمال نامہ کے مالک بنے تو بہت زیادہ پچھتا وا ہی ہوگا۔

Poor People

Poor People

جو غریب ہیں، ضرورت مند ہیں، مسکین ہیں، کمزور اور پریشان ہیں اور بے اختیا ر ہیں یہ حضرات بھی یاد رکھیں کہ ”جو ہے نہیں ہوگا” شاید کل ان کے مسائل نہ ہوں اس لئے ان کو صبر کا دامن پکڑکر وقت کو مسکراتے ہوئے بسر کرنا ہی ہوہے تاکہ کل ”جو ہے نہیں ہوگا” ان کے لئے مفید ثابت ہو سکے۔ دیکھا جائے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی دنیا ہر اہم طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں ۔ انجینئرز، ڈاکٹر، سیاست دان، عالیٰ افسران، پروفیسرز، علماء کرام، مفتی حضرات، دانشور، ٹیکنو کریٹس اور مفکرین بھی مو جود ہیں۔ یہاں ایک عجیب بات نظر آ تی ہے جتنا بلند اُتنا زیادہ لا پرواہ اور غیر ذمہ دار نظر آتے ہیں ۔ شاہ محمود قریشی کی اس بات پر کوئی عمل نہیں کرتا ہے اگر زرا بھی عمل کرتا تو کم عمل ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتی ہے۔

اگر پاکستان قوم اس جملے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا ئیں ”جو تھا نہیں ہے۔۔۔ جو ہے نہیں ہوگا” تو ممکن ہے کہ دین و نیا بہت آسان ہو جائے ۔ یہاں ہم خدا کی ملکیت کو سیلف پراپرٹی تصور کرتے ہیں جس کی حصول کے والدین کو قتل کرنے والے جاہل بھی موجود ہیں ، بھائی بہن کو قتل کر کے ملکیت کو اپنا بنا نے والے بھی بے وقو ف دیکھے گئے ہیں۔ ساری زندگی اس کی حصول کے لئے قربان کرتے ہیں اور جب پاتے ہیں تو خود بے کار قبر کے پاس ہوتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ اس جملہ ”جو تھا نہیں ہے۔۔۔ جو ہے نہیں ہوگا” کو نظر ثانی کریں کہ اربوں لوگ آئے بھی اور پھر خالی ہاتھ چلے بھی گئے اب ہم ہیں تو ہم بھی ضرور چلے جائیں گے ۔ اس سے بہتر ہے وقت کو درست اور خدا کے بتائے ہو ئے اصول پر گزاریں تو شاید آسانیاں پیدا ہو جائیں۔ بحرحال قریشی کی بات ‘جو تھا نہیں ہے۔۔۔ جو ہے نہیں ہوگا” بہت دم ہے۔ نواز شریف بھی یہی بات کو نظر انداز نہ کریں کے مشرف اور زرداری بھی تھے جو چلے گئے ہیں اب خود ہیں ممکن ہے بہت جلدی واپس چلے جائیں ایسا کردار کا مالک بنیں کہ عوام ان کو دعا بھی دے اور ماضی کے بادشاہوں کی طرح ان کی تاریخ پر ان کو شب و روز ان کو یاد کریں۔

Asif Langove

Asif Langove

تحریر : آصف لانگو جعفر آبادی