تحریر : قادر خان یوسف زئی تحریک انصاف کے سربراہ کی دہشت گردی کی دفعات ہٹانے کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ رخصت پر گئے وزیر خزانہ اشتہاری ملزم قرار دے دیئے گئے ۔ سابق نا اہل وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف مقدمات نیب میں تیزی سے چل رہے ہیں ۔ نا اہل قرار دیئے جانے والے سابق وزیر اعظم کے دونوں بچے اشتہاری قرار پا چکے ہیں ، بیٹی اور داماد کو کرپشن کے مقدمات کا سامنا ہے ، پنجاب کے وزیر اعلی اب ماڈل ٹائون واقعے میں گھیرے میں آتے جا رہے ہیں ، اپوزیشن جماعتوں کی طاقت اس بات پر صرف ہو رہی ہے کہ وزیر قانون استعفیٰ دیں اور اپنے مسلمان ہونے کی تجدید کریں ۔ سندھ میں بڑے نامی گرامی سیاست دانوں پر نیب کی کاروائیاں جارہی ہیں ۔ بلوچستان میں معروف مقدمات پر فیصلے باقی ہیں ، صوبہ پختونخوا میں تو احتساب عدالت ہی معطل ہے ۔ کراچی آپریشن میں ہزاروں ملزم پکڑے گئے لیکن چارسخت آپریشن میں پکڑے جانے والے ملزموں کو عبرت کا مقام نہیں بنایا جاسکا گو کہ کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی میں تقریباََ امن قائم ہوچکا ہے ۔غرض یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی سیاسی صورتحال اس قدر مخدوش ہوچکی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں عسکری قیادت بھی عنان حکومت کا بار اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتی اور دوسری جانب پاکستان کے سامنے ایسی کوئی قومی سیاست جماعت بھی نہیں ہے جو تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی کرتی ہو۔ چھوٹے چھوٹے جھتے بنی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے کنوئیں میں ہی چھلانگیں لگا رہی ہیں ۔ اب قومی جماعت کے بجائے صوبائی اور لسانی جماعت کا تصور ہی باقی رہ گیا ہے ۔
پاکستان کے ان سیاسی حالات میں نوجوانوں کی بڑی تعداد مایوسی کا شکار کا نظر آتی ہے ۔ تبدیلی کے منتظر عوام اور خاص کر نوجوان بتدریج مایوسی کی انتہائی خطرناک اسٹیج تک پہنچ چکے ہیں۔ نوجوانوں میں اب مسالکی جذبے بیدار کرکے مزید فرسٹریشن پیدا کردی گئی ہے ۔ ایک نوجوان اب یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اپنا ایمان بچایا جائے کہ اسلام بچایا جائے ۔ یا پھر اسلام بچاکر اپنا ایمان بچایا جائے ۔ اگر اسلام بچایا جائے تو کونسا اسلام بچایا جائے ۔ آج کے اس سیاسی ماحول میں کھل کر اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ کونسا مسلک اسلام کا حقیقی ترجمان ہے ۔ لبرل ازم ، سوشل ازم ، اور اسلامسٹ کھل کر اپنے اپنے موقف پر ڈٹ چکے ہیں اور ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے جس قدر نازک صورت حال کا شکار ہے اس قدر تو قیام پاکستان کے مطالبے پر کانگریس کی قیادت اور اکھنڈ بھارت کے خواہش مند بھی نہیں ہوئے ہونگے ۔ان تمام حالات کا شکار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود عوام ہیں ۔ ہم نے اپنی آسائشوں کے لئے پاکستان کو نچوڑنے کا جو عمل کئی عشروں سے شروع کیا ہوا ہے اب اس میں ایک بوند بھی باقی نہیں رہی ہے لیکن اس امید پر اب بھی پاکستان کو نچوڑا جارہا ہے کہ اس میں سے اب بھی کچھ نکلے گا ۔آرزو ، خوائشیں اور سہانے خواب سب گرداب میں دھنستے جا رہے ہیں ۔ اس دلدل سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی کیونکہ کوئی یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ سب ٹھیک کردے گا ۔ سب آزمائے ہوئے ہیں ، سب کو جانچا جا چکا ہے ۔ جمہوریت کے نام پر تو کبھی اسلام کے نام پر کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جس نے عوام سے خوشنما وعدے نہ کئے ہوئے ۔ منتظر سیاسی جماعتوں میں اکھاڑ پچھاڑ کا مکروہ عمل نوجوانوں میں سیاسی بغاوت کو ابھار رہا ہے ۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں ، وہ نوجوانوں کے مسائل سے قطع نظر اپنی اپنی سیاسی چالوں میں مصروف ہیں ۔ منتظر اذہان سیاسی نظام سے بغاوت کرتا نظر آرہا ہے ۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد موجودہ سیاسی نظام سے باغی ہوچکی ہے اور ان کا رخ کس جانب جائے گا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو کیا سبق دے رہے ہیں ۔ انہیں کونسی راہ پر چلنے کے لئے خود کو مثالی بنا رہے ہیں ۔کیا آنے والے دنوں سے ہمیں آگاہی ہے کہ آج کا نوجوان جو پاکستان کی تقدیر بدلنا چاہتا ہے لیکن موجودہ حالات کو دیکھ کر اس میں جو منفی ردعمل پیدا ہورہا ہے اس کا ادارک شائد ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں کو نہیں ہے ۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کا طے شدہ فارمولا ہے کہ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا۔ اس لئے ماضی کے سخت حریف اور انتہائی نقاد دوبارہ کب اور کیوں حلیف بن جاتے ہیں اس کا علم شائد انہیں خود بھی نہیں ہوتا ہوگا ۔ اصولوں کی سیاست یا اپنے منشور پر ہی سیاست کا رواج ختم ہوچکا ہے۔ نظریہ ضرورت کسی ایک فرد کی ایجاد نہیں رہا بلکہ اس نظریہ ضرورت کو ہم سب نے اپنے رگوں میں اتار لیا ہے۔
نوجوانوں کو کبھی جھنڈے تو کبھی ڈنڈے دے کر استعمال کرنے کی روش بڑھتی جا رہی ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب کوئی جھنڈا و ڈنڈا ان کے ہاتھوں میں نہیں رہے گا ۔ سفید پوشی کا بھرم رکھنے والے اب چھوٹی چادروں سے پائوںڈھکنا چھوڑ دیا ہے ۔ ہم تاریخ کے اُس موڑ پر آگئے ہیں جہاں صرف سیاہ ست ہے اور کچھ نہیں ، امید کی کرنیں اپنا دامن چھوڑ چکی ہیں ۔ہم عالمی سیاست و طاقتوں کے بدلے رویوں میں اپنے گھر میں لگی آگ کو بجھانے کے بجائے ہاتھ سینج رہے ہیں ۔گھر میں لگی آگ کو بجھانے کے بجائے مزید اُس میں تیل ڈال رہے ہیں ۔ آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں ۔کیا ہم جانتے ہیں کہ اس کے نتائج کس قدر ہولناک نکلیں گے ۔ کیا ہم کبوتر کی طرح آنکھ بند کر خطرے سے محفوظ ہوچکے ہیں۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ ہمارے نوجوان کس راہ پر چل نکلے ہیں ، ہم دانش وارانہ باتیں کرکرکے تھکتے نہیں ہیں لیکن ہماری کھوکھلی باتوں کو سن کر نوجوان مکمل طور تنگ آچکا ہے بیزار ہوچکا ہے ۔ شائد اس اظہاریہ میں مایوسی کا گمان ہوتا ہوگا ۔ لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ میں نوجوانوں میں پیدا ہونے والی اُس بغاوت کو دیکھ رہا ہوں جس کی آگ سے گھر کا ایک کونا بھی نہیں بچے گا ۔ میرا گھر بھی خاک ہوجائے گا ۔ میری آواز نقار خانے میں طوطی کی طرح کوئی سننے والا نہیں ہے ، شائد میری طرح کئی کمزور آوازیں کسی نہ کسی کونے سے ضرور اٹھتی ہونگے لیکن جان لیجئے کہ ہم نے اپنے نوجوان نسل کو کوئی اچھا مثبت پیغام نہیں دیا ہے ۔ ان کے رجحانات کو تبدیل کرنے کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے ۔ آج کا نوجوان جب اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہ اس تنائو اور ذہنی اذیت کا شکار ہوتا ہے کہ اس کی فرسٹریشن دور کرنے کیلئے کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔ نوجوان اپنے دل و دماغ پر نادیدہ بوجھ کا رونا روتا ہے ۔ معاشرے میں طبقاتی تفریق کا ماتم کرتا ہے ۔ ملکی ، علاقائی حالات پر نوحہ کرتا ہے ۔ اپنے مستقبل کا وہ سوال اٹھاتا ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا ۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ، لفاظی اور پرجوش تقاریر اور جھوٹے وعدے اب اس قدر بے قعت ہوگئے ہیں کہ ان کا کوئی حاصل حصول نہیں ہے۔
سر محفل جو بولوں تو میں دنیا کو کھٹکتا ہوں رہوں میں چپ تو اندر کی، بغاوت مار دیتی ہے میں حق پر ہوں مگر میری گواہی کون دے گا کہ دنیا کی عدالت میں صداقت مارد یتی ہے زمانے سے الجھنا بھی نہیں اچھا مگر دیکھو یہاں حد سے زیادہ بھی شرافت مار دیتی ہے