اب جبکہ الیکشن 2018ء کے نتیجے میں تحریک انصاف واضح اکثریت سے مرکز میں حکومت کرنے جا رہی ہے ۔پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت کے ا مکانات ہیں کیونکہ آزاد اُمیدوار جو کامیابی سے ہمکنار ہوئے شاید تحریک انصاف کے ساتھ وفا داری کا حلف اُٹھائیں گے ۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے بھی دعویٰ کر رکھا ہے ۔بظاہر معمولی سی برتری کے ساتھ وہ سبقت میں ہے ۔ اس لیئے پنجاب میں حکومت کرنے کی وہ مستحق ہے۔محض چند دن رہ گئے ہیں اس فیصلہ سازی میں۔۔ ! ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت مُورد الزام ٹھہراتی ہے کہ معیشت تباہ حال تھی۔جس کو سنبھالنا مشکل ہے ۔ اس طرح پورا عرصۂ حکومت اسی اداکاری میں گزر جاتا ہے اور یہی ایکٹنگ اور مکاری ہر نئی حکومت کے لیے کرپشن کا بہانہ ہوتے ہیں۔
بہر حال عمران خان کی شخصیت عالمی سطح پر بھی کرشماتی شخصیت مانی جاتی ہے۔ اسی طرح عمران خان نے تبدیلی کا کرشماتی نعرہ لگا کر پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ۔حتیٰ کہ امریکی اخبارات میں بھی عمران خان کی شخصیت کو کرشماتی شخصیت قرار دے دیا اور مسٹر خان کو مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے موزوں کہا۔پاکستان کی عوام خصوصاً نوجوان باشعور تعلیم یافتہ طبقہ ایک عرصہ سے تبدیلی کا خواہاں تھا ۔جس پر عمل کرتے ہوئے آج سیاسی حوالے سے اجارہ داری کا خاتمہ کر کے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹنگ کے ذریعے کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔اب یہ خیال محو ہو چکا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ،پاکستان مسلم لیگ(ن)،ق لیگ ودیگر رجعت پسند مذہبی جماعتیں قومی سیاست میں پنجے گاڑے رکھیں گی۔بنیاد پرست مذہبی جماعتوں کی شکست بھی سماج میں مثبت تبدیلی کے لیے نہایت اہم ہے ۔جو ایک ترقی پسند بیانیہ ہے۔
25جولائی2018ء کے عام انتخابات میں ووٹرز کے تبدیلی کے نعرہ اور بظاہر عملی طور پر اس کی کوشش نے نئی حکومت کے قیام سے قبل ہی بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے۔ سیاسی فضاء ،ووٹرز کا جوش و خروش اور ایک عام آدمی کے تأثرات بھی یکسر بدل گئے ہیں۔ہر چوک ،ہر دوکان اور سڑکوں پر فراٹے بھرتی گاڑیوںمیں بھی یہی موسیقی سنائی دے رہی ہے :
روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی ہے تبدیلی کے اس نعرے کے لیے راقم کی طرف سے نیک خواہشات !
چونکہ اجارہ دار اور سٹیٹس کو کی سیاسی جماعتیںحالیہ عام انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہیں۔ شاید ان الزامات کا تعلق حقیقت سے نہ ہو کیونکہ عالمی مبصرین کی رائے ان الزامات کے حق میں نہ ہے ۔ ویسے اس عمل کو بھی دھاندلی کہا جائے گا ۔ جب ایک والد یا بڑا بھائی اپنے بیٹے یا اپنے سے چھوٹے پر دبائو ڈالے گا کہ فُلاں سیاسی جماعت یا شخصیت کو ووٹ دو۔شاید یہ حقیقت نا قابل تردید ہے کہ اس مرتبہ پولنگ کا عمل پچھلے ادوار کی با نسبت شفاف تھا ۔ پرچی میں دھاندلی نہیں دیکھی گئی اور نہ ہی پولنگ عملہ نے بیلٹ پیپرز پر زبردستی مہریں لگائیں یا لگوائیں۔ اس طرح ہم دعوےٰ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ حالیہ انتخابات شفاف تھے ۔ ویسے پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں ہر فرد، ہر وقت نسبتاًکرپشن اور دھاندلی کا مرتکب رہتا ہے۔
سو فیصد شفافیت کا تصور نا ممکن ہے لیکن پھر بھی ووٹرز نے تبدیلی کے نعرے کو عملی شکل دے ہی ڈالی۔ اس عمل پر عوام کو خراج تحسین ۔۔!آگے مسٹر خان اور اس کی متوقع کابینہ کی مرضی۔ اعتراف کرناہی پڑے گا کہ پی ٹی آئی کی متوقع حکومت کو لا تعداد بحرانوں کا سامنا رہے گا۔سالانہ بجٹ چونکہ پچھلی حکومت نے پیش کیا تھا۔ بجٹ بناتے اور پیش کرتے وقت مسلم لیگ(ن) کی برسر اقتدار جماعت کی اپنی ترجیحات تھیں جبکہ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں تضاددیکھا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ اداروں میں اصلاحات کی خواہاں شخصیات یقینا رائج نظام میں نا ہمواریوں اور سنجیدہ مسائل کا سامنا بھی کرتے ہیں جن سے نبرد آزما ء ہونانہایت دشوار ثابت ہوتا ہے۔ اس وقت ریاست پاکستان اور پاکستانی قوم صحت ،پینے کے پانی،زراعت کے لیے پانی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، نظام تعلیم میں نقائص، پولیس اور دیگر اداروں میں کرپشن اور بے ضابطگیاں اور سیاسی نظام میںخرابی جیسے مسائل سے نمٹ رہی ہے۔اگر ان مسائل پر پی ٹی آئی کے مسٹر خان کامیابی سے فتح پا گئے تو یقینی طور پر پاکستان تحریک انصاف قوم کے خوابوں کی تعبیر ثابت ہو گی۔
Mansha Fareedi
تحریر : منشاء فریدی چوٹی زیریں ڈیرہ غازی خان 03336493056