اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکان کی گرفتاری کا معاملہ ہمسایہ ممالک کے درمیان تلخی کا سبب بن گیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستانی حکومت کی طرف سے مظاہرین کے خلاف ایکشن کی مذمت کی ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے 19 ارکان کو منگل پانچ فروری کو اسلام آباد سے اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنی جماعت پی ٹی ایم کے ایک رکن ارمان لونی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ پی ٹی ایم کا دعویٰ ہے کہ صوبہ بلوچستان میں اس جماعت کے ایک مقامی رہنما ارمان لونی پولیس تشدد کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکان کی گرفتاری کے تناظر میں افغان صدر اشرف غنی نے اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں لکھا، ’’افغان حکومت کو خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں پر امن احتجاج کرنے والوں اور سِول سوسائٹی کے ارکان کے خلاف تشدد پر شدید تحفظات ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ اشرف غنی خود بھی ایک پشتون ہیں اور ان کی طرف سے اس ٹوئیٹ پر پاکستانی حکومت کی جانب سے سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ’’اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات محض صریح مداخلت ہیں۔‘‘ قریشی نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں مزید لکھا کہ اشرف غنی کو ’’افغان لوگوں کے درمیان طویل عرصے سے موجود رنجشوں‘‘ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ’’اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات محض صریح مداخلت ہیں۔‘‘
افغانستان اور پاکستان کے درمیان یہ تلخی ایک ایسے موقع پر پیدا ہوئی ہے جب طالبان افغانستان میں گزشتہ 17 برس سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے گزشتہ ماہ قطر میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کر چکے ہیں۔ رواں ہفتے انہوں نے روس میں افغان اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ تاہم افغان حکومت کے ساتھ طالبان نہ تو براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہیں اور نہ ہی قطر یا روس میں ہونے والے مذاکرات میں افغان حکومت کا کوئی وفد شریک ہوا۔
دوسری طرف انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پشتوں تحفظ موومنٹ کے گرفتار شدہ ارکان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق حکام کو ”پر امن پشتون تحفظ موومنٹ سے تعلق رکھنے والے احتجاجی مظاہرین کو بغیر کسی شرط کے فی الفور رہا کر دینا چاہیے۔‘‘
پی ٹی ایم الزام عائد کرتی ہے کہ فوج اور ملک کے دیگر سکیورٹی ادارے ہزاروں افراد کی جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار ہیں۔ ان میں سے اکثریت کی ایسے پشتون لوگوں کی ہے جو افغانستان کی سرحد کے قریب پاکستانی قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔