پشاور (اصل میڈیا ڈیسک) پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین کی گرفتاری کے بعد آج منگل اٹھائیس جنوری کو اس تحریک کے ایک اور اہم رہنما محسن داوڑ کو بھی حکام نے گرفتار کر لیا، جسے سیاسی کارکن اور مبصرین انتہائی منفی اقدام قرار دے رہے ہیں۔
منظور پشتین کی گرفتاری اور پی ٹی ایم کے دیگر رہنماؤں کے حراست میں لیے جانے کے بعد یہ تنظیم اس وقت ملک کے کئی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ کل پیر کو سینیٹ میں بھی پشتین کی گرفتاری کو موضوع بحث بنایا گیا تھا اور آج بھی ملک کے کئی حلقوں میں پشتین اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری پر بات چیت ہوتی رہی۔ سوشل میڈیا پر بھی پی ٹی ایم کے کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاریوں پر خوب تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف پی ٹی ایم نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کی کال دی تھی۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں ان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ اسلام آباد میں اس احتجاج کے اختتام پر عوامی ورکرز پارٹی اور پی ٹی ایم کے درجنوں کارکنوں کو پولیس نے گرفتار بھی کر لیا۔
اس احتجاج کے دوران مظاہرین نے منظور پشتین کے حق میں نعرے لگائے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرے میں نیشنل پارٹی پنجاب کےصدر ایوب ملک، عوامی نیشنل پارٹی کے سابق رہنما افراسیاب خٹک، اے این پی کی سابق ایم این اے بشریٰ گوہر، معروف سماجی رہنما طاہرہ عبداللہ، عوامی ورکرز پارٹی کی رہنما عصمت شاہ جہاں، پی ٹی ایم کے ارکان پارلیمنٹ محسن داوڑ اور علی وزیر سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری اسلام آباد پریس کلب کے باہر موجود تھی، جہاں یہ مظاہرہ ہو رہا تھا۔ پی ٹی ایم نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے اس کے کئی کارکنوں کو مظاہرے میں شرکت سے روکنے کے لیے باڑ لگا دی تھی۔
جب پولیس نے پی ٹی ایم کے رہنماؤں اور کارکنان کی گرفتاریاں شروع کیں، تو کئی کارکنوں نے پریس کلب میں پناہ لے لی جہاں سے وہ پولیس کے جانے کے بعد باہر نکلے۔ اسلام آباد کے علاوہ پشاور، کوئٹہ، لاہور اور ملک کے کئی دیگر شہروں میں بھی اس طرح کے مظاہرے کیے گئے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مظاہرے امریکا سمیت دنیا کے متعدد دیگر ممالک میں بھی کیے گئے۔
پاکستانی ٹی وی چینلز پر منظور پشتین کی گرفتاری کو اتنے نمایاں انداز میں پیش نہیں کیا گیا۔ تاہم کچھ انگریزی اور اردو اخبارات نے اس خبر کو نمایاں جگہ دی۔ ایک اردو اخبار نے منظور پشتین پر مقدمہ چلنے سے پہلے ہی اپنی ہیڈ لائن میں انہیں غدار قرار دے دیا اور افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے پشتین کی گرفتاری پر تبصرے کو قابل مذمت قرار دیا۔ پاکستان میں حکومت اور کئی ناقدین کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ بھی افغان رہنماؤں کے بیانات پر سیخ پا ہے۔
واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی کے علاوہ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی پشتین کی گرفتاری پر بیانات جاری کیے تھے، جن پر پاکستان میں ریاستی حلقے بہت نالاں ہیں۔ کئی حلقے ان بیانات کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے بیانات سے نہ صرف پاکستان اور افغانستان میں دوریاں بڑھ سکتی ہیں بلکہ یوں معاملات کشیدہ بھی ہو سکتے ہیں، جس کا اثر افغان امن عمل پر بھی پڑ سکتا ہے۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں اختلافی اور مزاحمتی سیاست کا گلا گھونٹا جا رہا ہے اور ہر وہ شخص جو ریاستی اداروں پر تنقید کرتا ہے، اسے غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ عوامی نمائندوں اور مقبول سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرنا اور ان پر بے بنیاد الزامات لگانے کا رجحان بہت منفی ہے۔ ناقدین کی رائے میں ریاست نہ صرف اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاسی رہنماؤں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے بلکہ جمہوریت نواز صحافیوں، دانشوروں اور لکھاریوں کو بھی ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے غضب کا سامنا ہے۔
معروف سیاست دان اور نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کے خلاف حکومتی اور ریاستی کارروائیاں قابل مذمت ہیں۔ انہوں نے کہا، ”کل انہوں نے منظور پشتین کو گرفتار کیا، جو کافی عرصے سے پر امن طریقے سے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ آج سننے میں آیا ہے کہ پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو اسلام آباد اور دیگر علاقوں سے بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں سے ریاست کے خلاف نفرت بڑھے گی۔ لہٰذا حکومت کو آگ سے کھیلنا نہیں چاہیے۔‘‘
پشتون قوم پرست رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کے خلاف کارروائیوں سے پشتون نوجوانوں میں سخت اشتعال ہے۔ ان کے مطابق، ”ایک طرف پشتونوں کو ہلاک کیا جائے، ان کے علاقوں پر جنگ مسلط کر کے انہیں تباہی کے دہانے پر لایا جائے، انہیں در بدر کر دیا جائے اور دوسری طرف انہیں پر امن جلسے اور جلوس بھی نہ کرنے دیے جائیں، ان کا میڈیا پر بلیک آؤٹ کر دیا جائے۔ یہ صرف پی ٹی ایم ہی نہیں بلکہ پوری پشتون قیادت کے ساتھ بھی ظلم اور ناانصافی ہے، جس کو اگر روکا نہ گیا، تو نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘‘
لیکن پاکستان میں کچھ حلقے اس بات کی نفی بھی کرتے ہیں کہ ملک میں پشتونوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پشتونوں کی ریکارڈ تعداد وزارتی عہدوں پر ہے اور پارلیمنٹ میں اعلیٰ عہدے بھی رکھتی ہے جب کہ نوکر شاہی میں بھی پشتونوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ ایسے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی ایم بیرونی ایجنڈے پر پشتونوں میں احساس محرومی کا رونا رو رہی ہے۔
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں پی ٹی ایم کو بھارت اور افغانستان کی حمایت حاصل ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”اشرف غنی اور حامد کرزئی کے بیانات کے بعد اب کسی کو کوئی شبہ نہیں کہ ان کے ‘این ڈی ایس‘ اور ‘را‘ سے رابطے ہیں۔ ہم نے پشتونوں کے سب مسائل حل کیے ہیں۔ صوبے کے پی میں ان کو تمام اختیارات کے ساتھ حکومت دی گئی ہے۔ قبائلی علاقوں میں امن قائم کر کے انہیں صوبے کا حصہ بنایا گیا۔ اگر ایک علاقے میں کچھ مسائل ہیں بھی، تو منظور پشتین پورے پاکستان میں اس کے لیے جلسے جلوس کس کے کہنے کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟‘‘
امجد شعیب کا کہنا تھا کہ اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ ملک میں انتشار پھیلانا چاہتت ہیں اور قوموں کے درمیان نفرت پھیلائی جا رہی ہے، ”میرا خیال ہے کہ ریاست کو ایسے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹنا ہو گا کیونکہ جب قبائلی علاقوں میں دہشت گردی تھی، تو یہ نہیں آئے۔ لیکن اب یہ امن کوسبوتاژ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، جو برداشت نہیں کی جانا چاہییں۔‘‘
پی ٹی ایم کا اصرار ہے کہ اسے کوئی بیرونی مدد حاصل نہیں اور یہ کہ وہ صرف حقوق کی جنگ ملکی آئین اور قانون کے دائرے میں رہے کر لڑ رہی ہے۔ پی ٹی ایم کے رہنما اور معروف پشتون دانشور ڈاکٹر عالم محسود نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اشرف غنی کے بیان پر انہوں نے ہمیں افغان ایجنٹ قرار دے دیا۔ اگر کوئی ہمارے حق میں بیان دیتا ہے، تو کیا یہ ہمارے بس میں ہے کہ ہم اس کو روکیں۔ صدر غنی کے بیان پر انہوں نے ہمیں افغان ایجنٹ قرار دیا لیکن مودی نے تو ہمارے حق میں کوئی بیان نہیں دیا، پھر بھی ریاست نے ہمیں بھارتی ایجنٹ قرار دیا ہوا ہے۔ تو یہ کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ اس ملک میں حقوق کے لیے لڑنے والوں پر ہمیشہ ہی غداری کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر محسود کا کہنا تھا کہ ریاست کے پی ٹی ایم کے خلاف تمام ہتھکنڈے ناکام ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ریاست ہمیں مشتعل کر کے ہمیں ختم کرنا چاہتی ہے لیکن ہم اپنی پر امن جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جیل اور ریاست کی سختیاں اور جبر ہمارے ارادوں کو ناکام نہیں بنا سکتے۔‘‘