پی ٹی وی کو تہذیب اور ثقافتی ورثے کو پھر سے بیدار کرنا ہو گا

PTV

PTV

تحریر : رائو عمران سلیمان
میں آج اپنی تحریر کا آغاز پاکستان ٹیلی ویژن کے ان پروگراموں سے کر رہا ہوں جنھیں دیکھنے کے لیے گھر کا گھر ہی بے تاب ہواکرتا تھا،ماں باپ ،بہو بیٹی یعنی سب ہی ایک ساتھ بیٹھ کر ان پروگراموں کو دیکھا کرتے تھے ،جس میں صبح سویرے مستنصر حسین تارڈ جیسے فنکار اور قلم کار جلوہ افراز ہوتے تھے اور اس کے بعد شا م کے اوقات میں ایک انتہائی شفاف ڈراموں کا آغاز ہوتا تھا۔ جب ہم ان کامیا ب ڈراموں کی بات کرتے ہیں تو ایسے میں ہم ان ڈراموں کے اداکاروں ،ڈائریکٹرز ،ہدایتکار اور رائیٹرز کو کسی بھی لحاظ سے فراموش نہیں کر سکتے۔

ان پاکستان کے مقبول لکھاریوں میں منشایادکا” جنون”بندھن”اشفاق احمد کے” ایک محبت سو افسانے “یونس جاویدکا”کانچ کا پل” رنجش “فاطمہ ثریا بجیا کا “عروسہ “سسی پنوں “حسین معین کا “دھوپ کنارے” آہٹ “شوکت صدیقی کا” خدا کی بستی ” انور مقصودکا “آنگن ٹیڈھا” ففٹی ففٹی “امجد اسلام امجد کا “وارث ” اصغرندیم سید کاچاند گرہن “اورغلام گردش اوراحمد ندیم قاسمی کے ڈراموں میں “قاسمی کہانی ” جبکہ منو بھائی اور عطالحق قاسمی سمیت اور بہت سے نام جنھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنے قلم کی جادوگری سے ناظرین کو ایک طویل عرصہ تک سحر میں جکڑے رکھاجبکہ ان ڈرامو ں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے والے پاکستان کے نامور فنکار اور فنکارائیں جن میںقوی خان ، معین اختر،جمشید انصاری،بہروزسبز واری ،شفیع محمد شاہ،محمود علی خان ، فردوس جمال ،شکیل احمد،طلعت حسین،قاضی واجد،عابد علی،راحت کاظمی ،خیام سرحدی ،توقیر ناصر اور وسیم عباس جبکہ اسی طرح روحی بانو،شہناز شیخ ،مرینہ خان،بشریٰ انصاری،طاہر ہ واسطی ،خالدہ ریاست ،بدرخلیل ،زہین طاہرہ ،روبینہ اشرف،،ثمینہ پیر زادہ ،عظمیٰ گیلانی ،ثانیہ سعید ،شگفتہ اعجاز جیسی فنکاروںنے اپنی لازوال ایکٹنگ سے ایک دہائی تک ڈرامہ انڈسٹری پر راج کیا پی ٹی وی کی ایک خاص بات یہ رہی کہ اس نے کبھی اپنے معیارپر سمجھوتہ نہیں کیا،ہمیشہ انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے فیملی ڈرامے پیش کیے جاتے رہے مگر آج اس کی جگہ مختلف چینلوں پر چلنے والے بے حیائی پر مبنی مارننگ شوز نے لینا شروع کر دی ہے۔

ایک وقت تھا کہ صبح سویرے مستنصر حسین تارڈ جیسے قلم کار ٹی وی پروگراموں پر بیٹھ کر اصلاحی پروگراموں کو پیش کرتے تھے مگر آج لگتاہی نہیں ہے کہ کبھی اس ملک میں ایک ایسا خوبصورت دوربھی گزر چکاہے۔ ان تمام یادوں کے ساتھ جب ہم موجودہ ڈراموں اور نیوز چینلوں پر چلنے والے مارننگ شوز کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں،آج کل مارننگ شوز میں جس انداز میں اس ملک کی گھریلوخواتین کو چہرے اور بدن کی خوبصورتی میں اضافے کے نام پر درس دیا جاتا ہے اسے دیکھ کر یہ ہی سوال اٹھتا ہے کیا یہ وہ ہی پاکستان ہے جس کی صبح کا آغاز قومی ترانے ،تلاوت قرآن پاک اور نعت شریف سے ہواکرتاتھا،مگر آج جو کچھ چینلوں پر دکھایا جارہاہے کیا ہمارادین اسلام اس طرح کے کلچر کی اجازت دیتاہے؟۔کہ لڑکیاں اور لڑکے ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص کرتے رہے اور سامنے بٹھائی گئی مسوسقط کی عورتیں تالیں پیٹتی رہیں ؟۔ کیا ان تھرکتے بدنوں کو عالم اسلام کے علماء کرام نہیں دیکھ رہے۔

کیا وجہ ہے کہ اس ماحول کے خلاف آوازیں نہیں نکلتی؟ میں بتاتا ہوں یہ سب دین کے بیوپار مولویوں کا ٹولہ صبح ان ہی چینلوں پر بیٹھ کر خواتین کے سنھری خوابوں کی تعبیریں بتارہا ہوتاہے کہ جن مولویوں کی پیچھے نماز پڑھنے والوں کی تین صفیں مکمل نہیں ہوتی وہ مفکر اسلام بن کر ان چینلوں پر خوب باتیں تو کررہے ہیں ہوتے ہیں مگر پاس بیٹھی حسینہ عالم کے لباس پر تنقید کرنے کے لیے منہ سے چوں تک نہیں نکلتی ! کیونکہ یہ سب کچھ اسکرپٹ کا حصہ نہیں ہوتاہے میں پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اصل چہرہ جسے صبح سویرے اس طرح بدنام کیا جانے لگاہے ،ا دھورے کپڑے فل میک اپ اور چہرے کے باریک نقشوں کو واضح طورپر دکھانا جن کے میک آرٹسٹ خود مرد حضرات ہوتے ہیں۔

ایک ایسے اسلامی ملک میں یہ سب کچھ دکھایا جا رہا ہے جہاں اپنے مرد کے سواتقریباً سب کو ہی غیر محرم قراردیاجاتاہے ،یہ ماحول کس طرح سے گھریلوں خواتین پر اثر انداز ہورہاہے اس کا اندازہ ہم اس وقت تک نہیں کرسکیں گے جب تک گھر گھر میں بیوٹی پارلر نہیں کھل جاتے،جب تک سڑکوں پرکھلے عام بے حیائی نہیں پھیل جاتی کل تک جو اصلاحی ڈرامے گھروں کو جوڑا کرتے تھے آج کے ڈرامے اس ہی انداز میں گھروں کو توڑ رہے ہیں ،میں کوئی انوکھی بات نہیں کررہاہوں جو مجھے پڑھ رہے ہیں وہ ان چینلوں پر سب کچھ دیکھ بھی رہے ہیں ، جس ملک کی خواتین کی کبھی پردے اور برقے میں آنکھیں بھی بمشکل دکھائی دیتی دیتی تھی آج و ہ ہی خواتین نہ صرف درزی کو کپڑے کا نام دینے خود جاتی ہیں بلکہ یہ فرمائش بھی کرتی ہیں کہ آگے سے گلہ چوڑا پیچھے سے دامن یوں اور آگے سے یوں کرنا ہے ، دوستوں یہ سب کچھ ان ہی بے حیائی پر مبنی ڈراموں اور مارننگ شوز کی وجہ سے ہے جس کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ جب چینلوں کی دوڑ میں اس قدر جدت نہیں تھی اس وقت ان چینلوں پر نمازوں کے اوقات حدیث نبوی اور اسلامی اصولوں پر مبنی پروگرام دکھانے کا زور تھا ، صبح سویرے تلاوت کلام پاک ،اور زکر الہی پر مبنی پروگرام دیکھنے کو ملتے تھے یہ سادگی کا عالم تھا رزق کم تھا مگر برکت اس قدر تھی کہ اس کم پیسے میں بھی ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے چکر کم ہی لگتے تھے مگر آج اس بے حیائی اور مغربی کلچر کے فروغ کے نقصانات اس قدر زیادہ ہوچکے ہیں کہ جسے دیکھ کر ہول آتے ہیں۔ یقینا ان پروگراموں کی بندش کروانا حکومت کا کام ہے مگر اس کے ساتھ معاشرے کے بھی کچھ فرائض ہیں اس ملک میں کچھ عالم دین فلمی خواتین کے درمیان بیٹھ کر اسلام کی خدمت کرنے کی بجائے ان کے پروگراموں کی ریٹنگ بڑھارہے ہوتے ہیں، یہ ضرور ہے کہ سبھی چینل ایسا نہیں کرتے مگر جو کرتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہوچکی ہے ۔ ہمیں اس ماحول سے نکلنے کے لیے پھر سے اس دور میں واپس جانا ہوگاجس کا میں اوپر کی تحریر میں زکر کرچکاہوں ،پاکستان ٹیلی ویژن کے موجودہ ایم ڈی صاحب اور اس کے دیگر ذمہ داران کو پی ٹی وی کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو پھر سے بیدار کرنا ہوگایہ ہی وہ عمل ہے جو اس معاشرے میں پھر سے تہذیب و ثقافت کی ترویج کرسکتاہے ۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔

Rao Imran Suleman

Rao Imran Suleman

تحریر : رائو عمران سلیمان
(رائو نامہ)
Email: raoimaran.media@gmail.co
3501- .Mob:0300-928