تحریر : پروفیسر رفعت مظہر پیپلزپارٹی کے دَور ِحکومت میں جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری دَھڑادَھڑ اَزخود نوٹس لے رہے تھے تو نواز لیگ خوشی سے بغلیں بجا رہی تھی۔ اب میاں ثاقب نثار کے اَز خود نوٹسوں کی بھرمار اور پیپلزپارٹی خوشی سے نہال۔ ایک بات بہرحال طے کہ آمریت کسی کو بھی پسند نہیں سوائے اُن ضمیر فروشوں کے جو اقتدار کے لالچ میں آمریتوں کے دست وبازو بنے۔ پتہ نہیں یہ پرویزمشرف سے نفرت کا اظہار تھا یا عدلیہ سے پیار کا کہ جونہی اعلیٰ ترین عدلیہ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو گھر بھیجا گیا، پوری قوم آمر کے خلاف صف بستہ ہو گئی۔ یہ عوامی شعور کی پختگی کا پہلا دِل خوش کُن نظارہ تھا، حالانکہ آمریتیں آتی رہیں، عدلیہ کا وقارواختیار کم ہوتا رہا لیکن قوم لاتعلق ہی رہی۔ اِس میں کچھ قصور عدلیہ کا بھی تھاکہ جو آمر بھی آیا، عدلیہ نے ہی اُس کے لیے ”نظریۂ ضرورت” گھڑا اور اُس کی حکومت کو آئینی قرار دیا۔ لیکن جب ایک عادل ایک آمر کے سامنے ڈَٹ کر کھڑا ہوگیا تو پوری قوم نے اُس کی آواز پر لبّیک کہا۔ ہم نے دیکھا کہ وہ لوگ بھی سڑکوں پر تھے جو شاید ”چیف جسٹس” کے معنی سے بھی نا آشنا ہوں گے۔
عوامی شعور کی پختگی اب اِس نہج پر پہنچ چکی کہ لوگ عدلیہ کے فیصلوں کو سمجھتے بھی ہیں اور تنقید و تنقیص بھی کرتے ہیں۔ اُنہیں اپنی عدلیہ سے پیار ہے اور اُس کا احترام بھی واجب لیکن جب دَھڑادَھڑ متنازع فیصلے آنے لگیں تو عدلیہ پر اعتماد میں کمی اظہرمِن الشمس ۔جس کا علاج توہینِ عدالت کی سزاؤں کی صورت میں ہر گز ممکن نہیںکیونکہ یہ جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ سبھی مشاہدہ کر رہے ہیں کہ نااہلی کے بعد میاں نوازشریف کی مقبولیت میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا اور عوامی تعداد کے لحاظ سے اُن کے جلسے محیرالعقول۔ اب اگر احتساب عدالت اُنہیں سزا دے کر پابندِسلاسل کر دیتی ہے تو ہمدردی کا بچا کھُچا ووٹ بھی اُن کی جھولی میں آن گرے گا۔ دست بستہ عرض ہے کہ آئین کی تشکیل عوام کے منتخب نمائندے ہی کرتے ہیں اور جمہورت نام ہی ”عوام کی حکومت، عوام کے لیے ،عوام پر” کا ہے۔ اِس لیے عوامی رجحان کو مدّ ِ نظر رکھنا بھی ضروری۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عوام بس ”نہلے، دہلے” ہیں تو یہ اُس کی بھول ہے۔ اِس لیے ہم تو عرض ہی کر سکتے ہیں کہ عدل کے اونچے ایوانوں سے ایسے فیصلے آنے چاہییںجو عدلیہ کا قد اونچا کریں، اُس کے وقار میں اضافہ کریں اوراُس کے فیصلوں کی تنقیص ممکن ہی نہ ہو۔ اگر جج صاحبان خود بولنے کی بجائے اپنے فیصلوں کے ذریعے بولیں تو اُن کی عزت واحترام میں کئی گنا اضافہ ممکن۔ با با رحمت بھی خوب جانتے ہوں گے کہ نہ صرف عوام بلکہ وکلاء کی کثیر تعداد بھی عدلیہ کے فیصلوں سے مطمئن نظر نہیں آتی اِس لیے چیف جسٹس محترم ثاقب نثار کوئی ایسا کام کر جائیں کہ پاکستان کی تاریخِ عدل میں اُن کا نام ہمیشہ جگمگاتا رہے۔
جب پیپلزپارٹی کی ”غضب کرپشن کی عجب کہانیاں” مشہور ہو رہی تھیں تو نوازلیگئیے خوشی سے نہال اور اکابرینِ پیپلزپارٹی کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کر رہے تھے۔ آج نوازلیگ زیرِعتاب اور پیپلزپارٹی مسرور و مطمئن۔ عمران خاں بھی یہ ادراک کیے بغیر کہ اُن کی احتجاجی تحریک سے ملک وقوم کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے ،گزشتہ پانچ سالوں سے نوازلیگ کے پیچھے لَٹھ لے کر دَوڑ رہے ہیں۔ اُنہوں نے خود اقرار کیا کہ وہ خیبر پختونخوا کی طرف توجہ نہیں دے سکے کیونکہ احتجاجی جلسے جلوسوں اور دھرنوں کی وجہ سے اُنہیں فرصت ہی نہیں ملی لیکن اُنہیں یاد رکھنا ہوگا کہ 2018ء کے انتخابات میں ووٹ بہرحال کارکردگی کی بنیاد پر ہی ملے گا کیونکہ عوام سدھائے ہوئے بندر نہیں جو ہر کسی کی ڈُگڈگی پہ ناچنے لگیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جتنی جی چاہے تنقید کریں لیکن یہ تو بہرحال طے کہ اِسی میڈیا نے عوامی شعور کی پختگی میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ اب تو ایک عامی بھی اتنا با شعور ہو چکا جہاں اُسے اپنے بُرے بھلے کی خوب پہچان ۔ برادری اور ”گَدی نشینی” سسٹم آہستہ آہستہ دَم توڑ رہا ہے اور صورتِ حال کچھ یوں کہ اگر ایک گھرانہ چار افراد پر مشتمل ہے تو چاروں افراد اپنی اپنی سوچ کے تابع۔ اِس لیے یہ طے کہ 2018ء کے انتخابات کارکردگی کی بنیاد پر ہوں گے اور کارکردگی میں نوازلیگ سب سے آگے۔
پیپلزپارٹی نے اپنے دَورِحکومت میں کوئی کارکردگی نہیں دکھائی، ہاں اُس کی کرپشن کی کہانیاں زبان زَدِ عام ہوتی رہیں۔ سندھ حکومت کا موجودہ دَور بھی پچھلی حکومت کا عکس ہی نظر آتا ہے جبکہ دوسری طرف تمام تر ابتلاء کے باوجود نوازلیگ نے ملکی ترقی کے لیے مقدور بھر کوشش کی۔ 2013ء کے انتخابات سے لے کر اب تک تحریکِ انصاف اُس کی راہ میں متواتر روڑے اٹکاتی رہی۔ انتخابات کے فوراََ بعد توعمران خاں نے فرمایا تھا کہ تحریکِ انصاف ملکی ترقی کے کاموں میں نوازلیگ کا بھرپور ساتھ دے گی لیکن عملی طور پر وہ احتجاج کرتی سڑکوں پر ہی نظر آئی۔ عین اُس وقت جب چینی صدر کے دَورۂ پاکستان کی تاریخ طے ہو چکی تھی،عمران خاں اسلام آباد کا گھیراؤ کیے بیٹھے تھے۔ جب حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے چینی صدر کا دَورہ منسوخ کیا گیاتو کپتان نے کنٹینر پر ٹہلتے ہوئے کہا ”او جھوٹو! چینی صدر تو آ ہی نہیں رہا تھا”۔ بعد میں چینی سفارتخانے کو یہ وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا کہ چینی صدر واقعی پاکستان کے دَورے پر آرہے تھے۔ تحریکِ انصاف کے 126 روزہ دھرنے نے پاکستانی معیشت کے آگے بند باندھ دیا اور وہ سی پیک جو آج شاید اپنے تکمیلی مراحل میں ہوتا ،اس میں کم از کم ایک سال کی تاخیر ہوگئی۔ پھر پاناما کیس آیا جس نے صرف میاں نوازشریف کو ہی نااہل نہیں کیا بلکہ ملکی معیشت بھی جام ہوکر رہ گئی۔ ترقی کا پہیہ رُک گیااور 52 ہزار پوائنٹس پر پہنچی سٹاک مارکیٹ 38 ہزار پوائنٹس تک گِر گئی۔ سرمایہ کاروں کے اربوں کھربوں ڈوب گئے اور غیرملکی سرمایہ کار جو پاکستان کی طرف رجوع کر رہے تھے، اُن کے بڑھتے ہوئے قدموں کو بریک لگ گئی۔
جب تحریکِ انصاف مرکزی حکومت کے خلاف بَرسرِ پیکار تھی ،تب بھی مرکز اور خصوصاََ پنجاب میں ترقیاتی کام جاری رہے۔ میاں شہبازشریف نے پورے پنجاب میں سڑکوں، اوورہیڈز اور اَنڈرپاسز کا جال بچھا دیا۔ لاہور ، ملتان، راولپنڈی میں میٹروٹرین کا اجراء ہوا۔ اب لاہور میں سیٹیاں بجاتی اورنج لائن ٹرین بھی چلنے کو ہے۔ میاں شہبازشریف کہتے ہیں کہ اگر تحریکِ انصاف عدالتوں سے حکمِ امتناعی حاصل نہ کرتی تو آج اورنج لائن منصوبہ مکمل ہو چکا ہوتا۔ وہ اپوزیشن جماعتیں، جو طنزیہ انداز میں لاہور کی میٹروٹرین کو ”جنگلا بَس سروس” کا نام دیتی تھیں، آج خود بھی کراچی اور پشاور میں میٹرو بس چلانے کی تگ ودَو میں ہیں۔ میٹروبس کے علاوہ پنجاب حکومت نے عوامی سہولت کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا بھی انتظام کیا ہے۔ اب کم از کم لاہور میں وہ صورتِ حال نظر نہیں آتی جو پاکستان کے معاشی حَب کراچی میں ہے جہاں عوام سڑکوں پر خوار ہوتے اور بسوں کی چھتوں پر سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ترقی صرف پنجاب میں نظر آتی ہے یا پھر مرکز میں کہ جس نے لوڈ شیڈنگ کے عفریت پر قابو پایا، دہشت گردی کا خاتمہ کیا اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے کو آپریشنل کیا۔