تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم گئے وقتوں کی بات ہے جب وطن عزیز میں پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہوئی تو اس پارٹی کے پلیٹ فارم سے بڑے بڑے نام ابھر کر سامنے آئے بھٹو فیملی اور پیپلز پارٹی لازم و ملزوم نظر آئے اسے وفاق کی پارٹی کہا گیا ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی قیادت میں چلنے والی پی پی پی انٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی سمجھی جاتی رہی اور عوام میں اس کی جڑیں بہت گہری تصور کی گئیںبھٹو فیملی کے منظر سے ہٹتے ہی پارٹی کی بنیادی پالیسیوں کو رفتہ رفتہ فراموش کیا جانے لگاآصف علی زرداری کی قیادت میں چلنے والی پی پی پی نے یو ٹرن لیا انٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی کو پس پشت ڈال دیا گیا مفاہمتی پالیسی کا ہر جانب چرچہ زبان زد عام ہوا زرداری نے اپنی ٹرم چاپلوسی اور مفاہمتی پالیسی سے پوری کی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات ہوئے تو وفاق کی پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی پارٹی نے جو بڑے بڑے نام دیئے وہ وقت کے ساتھ ساتھ مفاہمتی پالیسی کے باعث دور ہوتے گئے موجودہ دور حکومت ہونے والے ضمنی انتخابات میں جو حشر ہوا یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا مسلم لیگ کو ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی جماعت کہا گیا بارہ اکتوبر 1999ء کے بعد اس جماعت نے بھی یو ٹرن لیا اور اپنی سیاست کا آغازانٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی سے کیا یوں یہ جماعت عوام میں مقبول ہوتی گئی۔
پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سے میاں نواز شریف نااہل ہوئے تو انہوں نے کھل کر فرنٹ لائن پہ کھیلنے کا فیصلہ کیا سابق وزیر اعظم اپنی عدالتی نااہلی کے بعد انٹی اسٹیبلشمنٹ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے نئے روپ میں میاں صاحب ایک طاقت ور لیڈربن کر ابھرے ان کی مقبولیت ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے نااہلی کے بعدچکوال اور لودھراں کا ضمنی الیکشن ایک بڑا ”سیاسی اپ سیٹ ” ثابت ہوا۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 کے ضمنی انتخاب کے نتائج نے سیاسی پنڈتوں کے ساتھ سیاسی کارکنوں کو بھی حیران کر دیا حالات و واقعات ، سیاسی تجزیئے ،تخمینے اور پیشگوئیاں ساری کی ساری ٹھس ہوتی دکھائی دیں ”تبدیلی کا نعرہ”اور ”ایک زرداری سب پہ بھاری” کی بجائے ”شیر اک واری فیر”کا نعرہ درست ثابت ہوا الیکشن نتائج نے جہاں حکمران جماعت کو مشکل حالات اور گردش ایام میں ایک نئی آکسیجن فراہم کی وہاں پاکستان تحریک انصاف کے ایوانوں میں ایک بڑا سیاسی دھچکا اور لرزہ طاری کردیاضمنی الیکشن میں تحریک انساف نے بھر پور انتخابی مہم چلائی حتی کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرکے ایک تلاطم سا پیدا کر دیا گیا پی ٹی آئی کے ہر اہم رہنما نے لودھراں میں ڈیرے ڈال رکھے تھے حلقہ میں ترین نے جیتنے کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہایا پی ٹی آئی نے اس ضمنی انتخاب میں ایک ایسا انتخابی ماحول پیدا کردیا تھا جو ایسا ظاہر کر رہا تھا کہ شاید حکمران جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑے۔
مسلم لیگ ن کا کوئی اہم رہنما حلقہ میں انتخابی مہم چلانے نہیں گیا البتہ حکمران جماعت کے امیدوار نے اپنی انتخابی مہم بڑی خاموشی سے چلائی صدیق کانجو گروپ نے روٹھوں کو منایا اور مسلم لیگ ن کی بے جان الیکشن مہم میں جان ڈال کر سب کو حیران کر دیا چکوال کے بعد لودھراں کی ”عوامی عدالت ” نے حکمران جماعت کو حکومتی ایوانوں میں پہنچا کر عوامی فیصلہ سنا یا غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق ن لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرتے ہوئے میدان مار لیا ہے اور ایک لاکھ 16 ہزار 590ووٹوں سے کامیاب قرار پائی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی ترین 91 ہزار 230ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے ہیں یوں یہ نشست حکمران جماعت نے 25ہزار 360 ووٹوں کی برتری سے پی ٹی آئی سے دھڑلے سے چھین کر اپنے نام کر لی مسلم لیگ ن کا شیر کچھار سے نکل کر ایسا دھاڑاکہ مخالفین کونہ صرف کھا یا بلکہ ہضم بھی کرگیاشیر کی دھاڑ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ماضی میں یہاں سے جیتنے والی پی پی پی کے امیدوار کی ضمانت تک ضبط ہو گئی۔
اب ذرا نظر ڈالتے ہیں کہ دو ہزارتیرہ کے عام انتخابات اور پھر ضمنی انتخاب میں اس حلقہ میں کون کہاں کھڑا تھا گزرے سالوں میںسیاسی کارکنوں نے ہر الیکشن میںاپ سیٹ کیا پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین 2015 میں لودھراں کے حلقے این اے 154 میں محمد صدیق خان کے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد ضمنی انتخاب میں ایک لاکھ 38 ہزار 719 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے۔ 11 مئی 2013 کے عام انتخابات میں این اے 154 سے محمد صدیق خان ن نے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑا اور 86 ہزار 177 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے تھے جبکہ جہانگیر ترین نے 72 ہزار 89 ووٹ لیے اور دوسرے نمبر پر رہے اور ن لیگ کے امیدوار سید محمد رفیع الدین بخاری نے 45 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے تاہم دھاندلی کے الزامات کے باعث 2015 میں محمد صدیق خان نااہل ہو گئے اور ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین نے واضح اکثریت سے کامیابی سمیٹی اور ایک لاکھ 38 ہزار 719 ووٹ حاصل کیے جبکہ محمد صدیق نے ن لیگ کی ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا لیکن کامیاب قرار نہیں پائے اور 99 ہزار 933 ووٹ حاصل کیے۔پاکستان تحریک انصاف گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں” تبدیلی” کا ڈنڈھوراپیٹتی چلی آرہی ہے پی ٹی آئی جس تبدیلی کا نعرہ لگاتی رہی ہے اور نئے پاکستان کے سہانے خواب دکھا رہی تھی لودھراں کے ضمنی الیکشن نے سب کچھ الٹ پلٹ کے رکھ دیا باپ کی سپریم کورٹ سے نا اہلی کے بعد بیٹا بھی” عوامی عدالت ”سے ناہل قرار پایا پچھلے ضمنی الیکشن میں چالیس ہزار سے زائد ووٹوں سے جیتنے والی نشست پہ ذلت آمیز شکست ترین فیملی اورپی ٹی آئی کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے جنوبی پنجاب کے ووٹروں نے جو فیصلہ کیا ہے یہ آنے والے عام انتخابات کی نئی صف بندی کا پیش خیمہ ہے۔