تحریر : پروفیسر مظہر 17 ستمبر کو لاہور میں ہونے والا انتخابی معرکہ محض ایک ضمنی انتخاب نہیں تھا بلکہ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ انتخاب قومی سیاست پر کئی طرح سے اثرانداز ہوگا کیونکہ پاناما فیصلے میں میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد اِسے ”عدلیہ بمقابلہ نواز شریف” کا رنگ دے دیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 17 ستمبر کا دِن ملکی اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز رہا ۔یہ انتخابی معرکہ اِس لحاظ سے بھی منفرد تھا کہ یہاں حکمران بے بس نظر آئے اور ”اصل حکمران” تحریکِ انصاف کو جتوانے کے لیے سَرگرداں۔
محترمہ مریم نواز نے اپنی والدہ بیگم کلثوم نواز کی انتخابی مہم کی بنیاد ہی اپنے والد میاں نوازشریف کی متنازع نااہلی پر رکھی اور کپتان نے بھی اپنے ہر بیان میں بلند آہنگ سے بار بار یہ کہا کہ حلقہ120کا انتخاب یہ فیصلہ کرے گا کہ عوام عدلیہ کے ساتھ ہیں یا میاں نوازشریف کے ساتھ۔ اِسی بنا پر ایسا ماحول بن گیا جس میں عوام نے یہ طے کرنا تھا کہ میاں نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ درست تھا یا غلط۔کوئی یہ تسلیم کرے یا نہ لیکن حقیقت یہی ہے کہ عوام نے عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کر دیا اور جیت میاں نوازشریف کی جھولی میں ڈال دی۔ اگر اِس حلقے میں بیگم کلثوم نواز شکست سے دوچار ہو جاتیں تو پھر میاں نوازشریف کی اسلام آباد سے لاہور تک نکالی گئی تاریخی ریلی کی بھی کوئی حیثیت باقی نہ رہتی لیکن اِس جیت نے یہ ثابت کر دیا کہ نااہلی کے باوجود پنجاب آج بھی میاں نوازشریف کے ساتھ ڈٹ کے کھڑا ہے۔
لاہور کی یہ نشست روایتی طور پر میاں نوازشریف اور مسلم لیگ نون کے پاس ہی رہی ہے۔ شریف خاندان کی جلاوطنی کے زمانے میں بھی یہ نشست نوازلیگ کے پاس ہی رہی اور اِس پر پرویز ملک کامیاب ہوتے رہے۔ جہاں تک عوامی مسائل کا تعلق ہے یہ حلقہ بھی دوسرے حلقوں سے مختلف نہیں۔ یہاں بھی بہت سے عوامی مسائل تاحال موجود ہیں۔ اِس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ اِس حلقے کا انتخاب کارکردگی کی بنیاد پر ہوا۔ انتخابی مہم کا محورومرکز میاں نوازشریف کی نااہلی ہی رہا اور کپتان آخری دِن تک یہی شور مچاتے رہے کہ عوام ڈاکٹر یاسمین راشد کو جتوا کر یہ ثابت کر دیں کہ وہ عدلیہ کے ساتھ ہیں ،چوروں ،ڈاکوؤں اور لٹیروں کے ساتھ نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ”عدلیہ دوستی” نہیں بلکہ دشمنی تھی کیونکہ جیت تو بہرحال اُنہی کے حصّے میں آئی جنہیں چور، ڈاکو اور لٹیرے کہا جا رہا تھا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نادان دوست سے عقلمند دشمن بدرجہا بہتر ہوتا ہے۔ ویسے کپتان صاحب عدلیہ کے ایسے کوئی دوست بھی نہیں ۔ماضی میں وہ عدلیہ کے خلاف جو آگ اُگل چکے ہیں ،وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
حلقہ120 کے انتخابی نتائج کے مطابق بیگم کلثوم نواز نے میاں نوازشریف سے لگ بھگ تیس ہزار ووٹ کم لیے جس پر نواز مخالف تجزیہ نگار بغلیں بجا رہے ہیںجبکہ حقیقت یہ ہے کہ اِس حلقے میں آج بھی میاں نوازشریف کی مقبولیت میں رائی کے دانے کے برابر بھی کمی نہیں آئی البتہ نادیدہ قوتوں نے ماحول ایسا بنا دیا تھا کہ دورانِ انتخاب یوں محسوس ہونے لگا کہ بیگم کلثوم نواز شکست سے دوچار ہوجائیں گی۔ یہ ہم نہیں کچھ نیوزچینلز کے رپورٹر کہتے ہوئے پائے گئے کہ جس شخص کے ہاتھ میں ”شیر” کی پرچی ہوتی تھی ،اُسے یہ کہہ کر بھگا دیا جاتا تھا کہ اِس پولنگ سٹیشن میں اُس کا ووٹ نہیں البتہ جب وہی شخص ”بَلّے” کی پرچی لے کر جاتا تو اُس سے ووٹ ڈلوا دیا جاتا۔مختلف چینلز پر نوازلیگ کے ووٹرز یہ دہائی دیتے نظر آئے کہ ووٹ ڈالتے وقت اُن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ انتخابی عمل سے پہلے جتنے بھی سرویز ہوئے ،اُن کے مطابق بیگم کلثوم نواز کو ڈاکٹر یاسمین راشد پر دوتہائی برتری حاصل تھی مگر جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو یہ برتری ہوا ہو چکی تھی البتہ میدان پھر بھی نوازلیگ کے ہاتھ میں رہا ۔شاید اسی لیے انتخابات سے چند گھنٹے پہلے ایک باخبر نوازمخالف تجزیہ نگار یہ کہتے نظر آئے کہ سرویز ہیلی کلنٹن کی واضح برتری کے اشارے دے رہے تھے اور جیت گئے ڈونلڈ ٹرمپ اور حلقہ120 میں بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔
کپتان اپنی شرمندگی ٹالنے کا بہانہ تراشتے ہوئے کہتے ہیں ” NA-120 میں لوگ نوازلیگ سے ڈرتے ہیں ۔اِس حلقے میں نوازلیگ پرانی ایم کیو ایم کی طرح ہے۔ نون لیگ کے تیس فیصد ووٹ کم ہونا سپریم کورٹ کی فتح ہے”۔ جن لوگوں نے ”پولینگ ڈے” کا گہری نظر سے مشاہدہ کیا ،خوب جانتے ہیں کہ نوازلیگ کے ووٹرز کو پریشان کرنے کا ہر ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ پولنگ کا عمل اتنا سست تھا کہ جہاں تین ووٹ آسانی سے ڈلوائے جا سکتے تھے ،وہاں صرف ایک ووٹ ڈالا جا سکا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جان بوجھ کر چوالیس امیدوار میدان میں لائے گئے جن میں سے بقول رانا ثناء اللہ تیس اُمیدواروں کا تعلق ایک ہی جماعت سے تھا۔ اب چوالیس انتخابی نشانات میں سے ”شیر” کا نشان تلاش کرنا بھی یقیناََ دقت طلب ہوگا ۔الیکشن کمیشن کو بھی خوب معلوم ہوگا کہ کبھی بھی ضمنی انتخابات میں اتنے اُمیدوار سامنے نہیں آتے۔ اِسی کو بنیاد بنا کر وقت بڑھایا جا سکتا تھا مگر الیکشن کمیشن نے ایسا نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں لوگ پانچ بجے کے بعد قطاروں میں کھڑے نظر آئے مگر الیکشن کمیشن نے اپنی روایات کے بالکل برعکس اور نوازلیگ کی درخواستوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مزید وقت دینے سے انکار کر دیا۔
وجوہات اور بھی کئی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ جن حالات میں انتخابات ہوئے ،وہ عام حالات نہیں تھے ۔میاں نوازشریف صدارتِ عظمیٰ سے نااہل ہوکر گھر جا چکے تھے۔ انتخابی اُمیدوار بیگم کلثوم نواز کینسر کے مرض میں مبتلاء ہو کر لندن کے ہسپتال میں جا پہنچیں ۔اُنہوںنے ایک دِن بھی اپنے حلقے کا دورہ نہیں کیا۔ میاں نوازشریف بھی بیگم صاحبہ کی تیمارداری کے لیے لندن چلے گئے ۔گھریلو تناؤ کی وجہ سے مریم نواز کے چچا اور کزنز بھی انتخابی مہم سے الگ ہوگئے اور تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ انتخاب کے دِن بھی میاں شہباز شریف کے کیمپ کا کوئی بندہ متحرک نظر نہ آیا۔ نوازمخالف نادیدہ قوتیں بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ اِس حلقے میں متحرک ہوئیں اور اگر رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق کی باتوں کو مبالغہ بھی سمجھا جائے تو پھر بھی آزاد باخبر اور صحافتی حلقے اِن الزامات کی تصدیق کرتے نظر آتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اِن بدترین حالات کے باوجود اکیلی مریم نواز نے ہی انتخابی مہم کا بیڑا اُٹھا کر یہ ثابت کر دیاکہ صرف وہی میاں نوازشریف کی جانشین ہیں۔ ہم انتہائی دبنگ چودھری نثار علی خاں کے اِس بیان کو ہرگز تسلیم نہیں کر سکتے کہ محترمہ مریم نواز بچی ہیں اور بچے غیرسیاسی ہوتے ہیں۔ اکیالیس سالہ مریم نواز کو بچی تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا اور موجودہ انتخابی معرکہ سَر کرکے اُنہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ غیرسیاسی بھی نہیں۔