تحریر : صباء لالچ کی ہر سطح پر برائے فروخت ہے اپنا تو پورا ملک برائے فروخت ہےخطہء پاکستان اس وقت کن مسائل سے دوچار ہے اسے بیان کرنے کے لئے ہمیں کسی قسم کی تمہید باندھنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ملک کا ہر بوڑھا ٰ بچہ اور جوان اس وقت کسی نا کسی سماجی ٰ معاشی اور معاشرتی مسئلے سے دوچار ہے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔قیام پاکستان سے لیکر اب تک ہم بہت سے مسائل سے نبرد آزما رہے مگر گزشتہ دس سال سے ہم اپنے ہی ملک میں حالت جنگ میں ہیں۔ اس صورتحال کے سب سے بڑے ذمہ دار ہم ہیں۔ سب سے پہلے ہم نے طالبان کو تسلیم کیا پھر امریکی ڈالرز کے حصول کی خاطر لال مسجد میں گورں کو خوش کرنے کی خاطر فوجی چڑھائی کی جس کے بعد ہم نے طالبان سے باقاعدہ جنگ کا آغاز کیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت کا رونا رونے والے اور ایک دوسرے کو غدار کا لقب دینے والے حقیقت میں ایک دوسرے کا پر تو ہیں۔ عوام مہنگائی کا رونا روتی ہے اور حکمرانوں کو تحفے میں اربوں ڈالرز مل رہے ہیں۔
گزشتہ برس امریکی سی آئی کے کے ایجنٹ رے منڈ ڈیوس نے دو قتل کئے تو امریکہ نے لاکھوں ڈالر دیکر بازیاب کرالیا۔ لیکن جہاں بات آئی قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کی وہاں ڈالرز کے حصول اور خوشامد کی خاطر ہم نے اپنی ہی بیٹی کو اپنے انٹیلی جنس کے ذریعے اغواءکرواکر امریکہ کے حوالے کردیا۔ اور ایک عرصہ تک حکومتی سطح پر عافیہ کے اغواءاور امریکی حراست سے لاعلمی کا اظہار کیا جاتا رہا۔ کچھ سال قبل جب ایک انگریز نے کہا تھا کہ پاکستانی پیسے کے لئے اپنی ماں بھی بیچ دیتے ھیں تو انسانیت کے علمبردار کچھ اعلیٰ حکمرانوں کے دل پر بڑی چوٹ پڑی اور انہوں نے بہت شور مچایا تھا۔
اس انگریز کا کہنا بالکل بجا تھا اپنی بیٹی امریکہ کے حوالے کرنے کے بعد اس کی واپسی کے حصول کیلئے کسی قسم کی کوشش نا کرنا اپنی ماں بہن کو بیچنا نہیں تو اور کیا ہے۔۔ ؟ پشاور سے اکیس لیویز فوجی اغواء کے دو دن بعد قتل کردئیے جاتے ھیں۔ نا کوئی سوگ ہوتا ہے نا مذمت کی گئی۔ پشاور سانحہ کے وقت خیبر پختون خواہ کی اعلیٰ قیادت ” میاں صاحب جان دیو۔ساڈی واری آن دیو” کا نعرہ لگانے میں مصروف تھی۔ کیسے حکمران ہیں یہ؟ کچھ باغبان بہار چمن بیچنے لگے جب کچھ نہیں بکا تو وطن بیچنے لگے
Kidnapping
آج کا واقعہ ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد میں ایک شخص کے بچوں کو ایک بااثر شخصیت نے اغواءکرلیا اسنے متعلقہ اداروں کا ہر در کٹھکٹھایا لیکن امید بر آنے کی کوئی سبیل نا ملی۔ بالا آخر علی الصبح مجبوراً وہ احتجاجاً بجلی کے کھمبے پر چڑھ گیا۔ پولیس نے وہاں پہنچ کر اسے انصاف ملنے کی یقین دہانی کروائی اور اسے نیچے اتارا گیا۔ دارالحکومت میں انصاف کی فراہمی کی صورتحال یہ ہے تو باقی ملک میں قانون کی بالادستی کا عالم کیا ہوگا؟ کچھ ماہ قبل ایک شخص نے اسلام آباد پولیس کو سڑکوں پر دوڑا کر تگنی کا ناچ نچا کر حکومت کے بلند و بالا دعووں کو زمین بوس کردیا تھا۔”فاٹا کے مسائل، لیاری نقل مکانی، تارکین وطن کے مسائل ، سانحہ شکار پور ٰ تھر کی صورتحال ، میرانشاہ ایئر بیس، سانحہ کراچی ایئر پورٹ، جی ایچ کیو، سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن ، سانحہ بارہ مئی ، عافیہ صدیقی ، مسئلہ کشمیر، سانحہ ایبٹ آباد ، کامرہ ایئر بیس ، سانحہ ایبٹ آباد ، مناواں پولیس اکیڈمی ، میریٹ ہوٹل اسلام آباد“ ان واقعات کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس حکومت کو الزام دینے کے لئے اور حکومتی بے حسی ثابت کرنے کیلئے ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور قتل و غارت کی ایک طویل فہرست ہے۔
مگر کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ جن حکمرانوں کو ہم لعن طعن ، طنز وتشنیع کا نشانہ بنائے رکھتے ھیں ان کو برسر اقتدار لانے والا کون ہے؟ حکمرانوں کو بے حسی کا خطاب دینے والے ہم عوام خود معاشرے کا سب سے بڑا ناسور ہیں۔ہم جاگیرداروں وڈیروں اور بھتہ خوروں کے غلام ہوچکے ھیں۔ بے حس اور بے ضمیر عوام اپنے ایمان کا سودا کرکے چند نوٹوں کی خاطر آزمائے ہوئے مفاد پرست امیدوار دوبارہ منتخب کرکے انکی فتح پر جشن منا کر مٹھائیاں بانٹ کر بہت فخر محسوس کرتے ھیں۔ اور پھر کچھ دن بعد ہی محرومیوں ، مہنگائی ، معاشی و معاشرتی بدحالی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ ہم لاشیں اٹھاتے ہیں دفناتے ہیں اور اور بے حسی کا عظیم الشان مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی چیک کا انتظار یوں کرنے لگتے ہیں گویا اپنے پیارے کو دفنانے کا ہرجانہ حکومتی چیک ہی تو ہوتا ہے۔ ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمارے ارد گرد روزانہ نجانے کتنے سانحات ہوتے ھیں اور ہم ایک لمحہ کے افسوس کے بعد ہم اگلے ہی پل سب کچھ بھول بھال کر ہم دنیا میں مگن ہو جاتے ھیں۔ بے حسی نے ہمیں اسقدر لپیٹ لیا ہے کہ ہم ٹی وی پر کسی بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والی خبر کو دیکھ کر اسے معمول کی خبر سمجھتے ہوئے چینل تبدیل کرلیتے ھیں۔
Muhammad Bin Qasim
ہمارے معاشرے کو از سر نو تشکیل کی ضرورت ہے۔ ہمیں محمد بن قاسم اور قائداعظم کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسے حکمران کی ضرورت ہے جو اپنی لالچ اور ہوس سے ہٹ کر اپنے مفاد اور مقصد سے بالاتر ہو کر ہمارے مسائل سمجھے۔ جو قومی اور ملکی مسائل کے حل کیلئے کرسی سنبھالے نا کہ قومی خزانہ لوٹنے، اپنے بیرون ملک اثاثوں میں اضافہ کرنے اور عوام کی بیروزگاری اور معاشی حالات کی مشکلات کو بڑھاوا ہرگز نا دے۔ہماری عوام کو اب باشعور ہونے کی ضرورت ہے۔ہمیں اللہ رسول کے احکامات پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اب جاگ جانے کی ضرورت ہے قائد کے پاکستان کو بچانے کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک پاکستان کے ذرے ذرے پر اپنا خصوصی رحم فرمائیں۔آمین