انتخابات 2013 میں بے ضابطگیوں کا اعترف

Elections

Elections

تحریر ۔۔۔لالہ ثناء اللہ بھٹی

ہر روز بدلتی ہوئی ملکی صورتحال دیکھتے ہوئے ہم عوام خود کو بھیڑ بکریاں سمجھنے پر مجبور ہیں۔ وہ بھیڑ بکریاں کہ جس کا دل کرتا ہے، اپنی لاٹھی اٹھاتا ہے اور ہانکنا شروع کردیتا ہے۔ کوئی “گڈریا” جمہوریت کی علمبرداری کررہا ہے اور کوئی انقلاب اور آزادی کی بات کرتا ہے۔ آئے دن کوئی نیا شوشہ، کوئی نیا کارنامہ سامنے آتا ہے۔ ایک طرف تو پاکستان کے امن و امان کو دہشتگردوں نے بگاڑ رکھا ہے اور دوسری طرف “شرفاء ” نے پاکستان اور عوام کی بوٹیاں نوچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور تو اور “شرفاء ” کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے لوگ بھی “شرفاء ” سے بے پناہ اور بے مثال فائدہ مند ہورہے ہیں۔

“شرفاء ” کے حامی اپنی جگہ نام نہاد این جی اوز بنا کر سادہ لوح عوام کو لوٹنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے اور دوسری طرف مخصوص چینلز اپنا حصہ لیکر “شرفاء ” کے کارناموں کی جھوٹی صفائیاں پیش کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ اگر جمہوریت کے استحکام اور آئین کی بالا دستی کیلئے ان نام نہاد “شرفاء ” کو مانتے ہیں تو شاید باقی کے ساڑھے تین سال کی زندگی بھی رائیگاں جائیگی اور اگر انقلاب اور آزادی کا ساتھ دیتے ہیں تو اسکا کوئی واضحنتیجہ سامنے نظر نہیں آتا۔ سب “گڈریے” اپنی اپنی ہانک رہے ہیں اور ہم سادہ لوح عوام بھیڑ بکریوں کی طرح جدھر منہ اٹھا، چل دیئے۔

شرفاء کے بیانات آئے دن میڈیا کی رونق بنتے ہیں۔ اگر ان بیانات کو صرف سنا جائے تو واقعی لگتا ہے کہ وطن عزیز ترقی کی راہ پر چل نہیں رہا بلکہ دوڑ رہا ہے اور اگر ان بیانات کی تصدیق کیلئے ٹوہ لگائی جائے تو حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ آئے دن نئے نئے منصوبوں کا افتتاح ہورہا ہے لیکن حاصل کچھ نہیں۔

شرفائسے ہم عوام کی گزارش ہے کہ جو عینک لگاکر آپ پاکستان کی ترقی کا دور ملاحظہ کرتے ہیں، ہم عوام کو بھی وہ عینک پہنا دیں، تاکہ ہم بھی اپنی زندگی میں ہی آپکے منصوبوں کو مکمل ہوتا دیکھ لیں۔ اور اگر میری بات دل کو نہ لگے تو ہم عوام کو “ٹوپی کروانا” بند کریں۔ لمحہ بہ لمحہ بدلتے سیاسی موسم اور حالات و واقعات نے ہم عوام کو بھی معمولی سی سمجھنے بوجھنے کی بصیرت بخشی ہے۔

گزرتے شب و روز کے ساتھ نئی سے نئی خبریں روز بروز عوام کے سامنے “شرفاء ” کے مکروہ کردار کو فاش کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک خبر سنی تھی کہ میٹروبس کے منصوبے کا ریکارڈ جل گیا۔ پھر ایک خبر سنی، ایک سرکاری سکول میں موجود “خاص” حلقے کا انتخابی ریکارڈ بھی نذر آتش ہوگیا۔ ہم عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آگ ہمیشہ وہاں ہی کیوں لگتی ہے جہاں”شرفاء ” خطرے میں ہوں؟ مزید یہ کہ خیر سے الیکشن کمیشن کی رپورٹ بھی الیکشن کمیشن کی آفیشل ویب سائیٹ کے ذریعے “منظر عام” پر آچکی ہے۔

اس رپورٹ نے عوام کے چودہ طبق روشن کردیے۔ اس رپورٹ کا خلاصہ قارئین کے پیشِ نظر ہے: 1: انتخابات 2013 میں آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق درست طریقے سے نہ ہوسکا۔ 2: اس رپورٹ میں امیدواران کی جانچ پڑتال کا عمل بھی غیر تسلی بخش قرار دیا گیا۔ 3: نامعلوم امیدواروں کو مناسب جانچ پڑتال کے بغیر کلیئر کردیا گیا۔ 4: الیکشن کمیشن انتخابات میں شفافیت کی خاطر یو این ڈی پی کی مدد سے تیار کردہ رزلٹ مینجمنٹ سسٹم کو اپنانے میں بھی ناکام رہا۔

5: بڑی تعداد میں ریٹرننگ افسران نے ہاتھ سے بنائے ہوئے نتائج الیکشن کمیشن کے بھیجے۔ 6: نامعلوم حلقوں میں نامعلوم تعداد میں بیلٹ پیپرز پہنچائے گئے۔ 7: ووٹنگ کے عمل کے دوران مقناطیسی سیاہی استعمال نہیں کی گئی۔ 8: جن کو الیکشنز کی ٹریننگ دی گئی، ان کی بجائے اناڑی لوگوں کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ (یہ چند مختصر نکات، جو الیکشن کمیشن کی رپورٹ سے قارئین کیلئے اخذ کیے گئے ہیں)۔

Election Commission

Election Commission

یعنی یوں کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات 2013 میں بے ضابطگیوں کا اعترف کرلیا۔ ایک سابقہ وزیر قانون کے بیان کے مطابق، الیکشن کمیشن کے حکام قوم کے مجرم ہیں اور ان پر آئین کا آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے۔ لیکن ایک دم سے ماجرا الٹ ہوگیا۔ الیکش کمیشن نے اپنی آفیشل ویب سائیٹ پر موجود رپورٹ سے اظہار لاتعلقی کردیا۔ قارئین کی اطلاع کے لیے مزید عرض ہے کہ اس رپورٹ پر الیکشن کمیشن کا آفیشل لوگو اور ممبران کے نام بھی درج ہیں۔ “عوام جائے تو جائے کہاں” کے مصداق، خاموشی کے ساتھ ضبط۔۔۔۔۔

بروز منگل، ہمارے “پیارے” پی ایم صاحب امریکا میں عالمی برادری کے سالانہ اجلاس کیلئے روانہ ہوئے۔ موصوف خیریت سے لندن میں واقع اپنی ذاتی رہائشگاہ میں پہنچ گئے ہیں۔ نیوز ایجنسی سے وابسطہ ہونے کی وجہ سے راقم کو بھی مختلف حالات و واقعات کی خبریں ملتی رہیں۔ پتہ یہ چلا کہ پی ایم صاحب کی لندن میں واقع رہائشگاہ کے باہر دنیا بھر کی میڈیا تنظیموں کے نمائندے موجود تھے۔ تاہم پی ایم صاحب، میڈیا سے بچنے کیلئے عقبی دروازے سے اپنی رہائشگاہ میں داخل ہوئے۔ میڈیا نمائندوں سے تو جان خلاصی ہوگئی، لیکن شام کے وقت برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں نے پی ایم صاحب کی رہائشگاہ کے باہر خوب “رونق” لگائی اور جس کے منہ میں جو آیا، بولتا گیا۔

ایک خبر کے مطابق، بھارتی وزارت خارجہ نے بیان دیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم، دورہء امریکہ کے دوران پاکستانی ہم منصب سے ملاقات نہیں کریں گے۔ بھارتی پی ایم اپنے دورے کے دوران امریکہ کی اعلیٰ حکومتی اور سرکاری شخصیات سے ملاقات کریں گے۔ پی ایم صاحب! ہم شرمندہ ہیں۔۔۔ آپکی بھیجی ہوئی آموں کی پیٹیاں کسی کام نہ آئیں۔ الٹا جگ ہنسائی ہوگئی۔۔۔۔ کاش! بابائے قوم، قائد اعظم “محمد علی جناح” آج زندہ ہوتے تو اپنے ملک اور اپنی قوم کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ جاتے اور ان تمام ظالم “گڈریوں” اور “شرفاء ” کو بھگا کر ہی دم لیتے اور ہم بھیڑ بکریوں کو پھر سے آزاد پاکستانی قوم کہلوانے کا حق دیتے۔ وہ پاکستان، جس کا خواب محترم علامہ محمد اقبال نے دیکھا۔ وہ پاکستان، جس کیلئے قائد اعظم نے اور ان کے ساتھیوں نے دن رات محنت کی۔ وہ پاکستان، جس کیلئے لاکھوں جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، ہزاروں عورتوں نے اپنے سہاگ اجاڑ دیئے۔ وہ پاکستان، جسے اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا۔ لیکن کہاں ہے وہ پاکستان؟.

آج پاکستان میں ہر طرف کرپشن، بدحالی، بے روزگاری، لوٹ کھسوٹ، دہشت گردی اور بد امنی کا بازار گرم ہے۔ وہ پولیس جو ہماری جان اور مال کی محافظ ہے، وہی پولیس رشوت کے طور پر ہم سے “مال” طلب کرتی ہے، اور اگر رشوت نہ دی جائے تو ہماری عزت اور جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ سرکاری ملازمین جن کو عوام کی خدمت کرنے کیلئے عہدے اور مراعات دیئے جاتے ہیں، (وہ بھی عوام کے ٹیکس سے حاصل ہونیوالی قومی آمدن سے)، وہی سرکاری ملازمین اور عہدیدار ہم عوام کو اپنے زر خرید ملازمین سمجھ کر حقارت اور نفرت سے دھتکار دیتے ہیں۔ کیا ہم عوام اتنے ہی “بے دام” ہوچکے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک میں بھی انصاف اور بنیادی حقوق کے حصول کیلئے رشوت دیکر گناہ گار ہونا پڑے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے: “رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا، دونوں جہنمی ہیں۔” ہمیں فرداً فرداًً اپنے احتساب کی بہت شدت سے ضرورت ہے۔

Lala Sanaullah Bhatti

Lala Sanaullah Bhatti

تحریر ۔۔۔لالہ ثناء اللہ بھٹی