تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم اِس میں شک نہیں کہ سرزمینِ پاکستان قدرت کے بے شمار وسائل سے ملامال ہے جس پر پاکستانی قوم کو ربِ کائنات کا شکراداکرتے رہنا چاہئے آج کم از کم اُس وقت تک تو پاکستانی قوم اللہ کا شکر ادا کرتی رہے جب تک کہ موجودہ حکومت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو آئی ایم ایف ( عالمی مالیاتی ادارہ) عوام کو سانس لینے اور اللہ کا شکر اداکرنے پر ٹیکس لگانے کا مشورہ نہیں دیتاہے اُس وقت تک تو پاکستانی قوم کا ہر فرد دن رات اُٹھتے بیٹھتے اللہ کا شکر ادا کرتی رہے۔
اِس لئے کہ اللہ نے ہمیں اپنی ہر قدرتی دولت اور وسائل سے ملا مال کیا ہواہے اَب یہ اور بات ہے کہ ہمارے حکمران ہی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نااہلی اور اپنی ناقص منصوبہ بندیوں اور فرسودہ حکمت عملیوں کے باعث اپنی سرزمین میں موجود ظاہر و باطن قدرتی وسائل کو استعمال نہیں کیا ہے بلکہ قیام ِ پاکستان سے لے کر آج تک جتنے بھی خواہ سول و آمرحکمرانوں کی حکومتیں آئیں ہیںسب ہی نے اپنی ضرورتوں کو پوراکرناکے لئے قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کے بجائے کبھی امریکاتولندن اور کبھی سعودی عرب اور مسلم ممالک کے دوست حکمرانوں سے قرضے اور امداد لے کر اپنا کام چلایااور اَب ہمارے موجودہ حکمران بھی آئی ایم ایف ( عالمی مالیاتی ادارہ) اور ورلڈبینک سے قرضوں کی اقساط لے کر اور مختلف بہانوں سے اپنے دوست ممالک سمیت دنیا کے دیگر ممالک سے امداد لے کر وہی کچھ کررہے ہیں جیساکہ ماضی سے ہوتاچلاآیا ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی جب یہی کچھ ہوتارہے گاتو قوم قرضوں تلے دب کر ہمیشہ مقروض ہی رہے گی اِس کا ترقی اور خوشحالی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں مقروض قوموں نے کبھی بھی ترقی اور خوشحالی کی منزلیںطے نہیں کیںہیں اورآج شائد ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمارے حکمران بھی یہی چاہتے ہیں کہ قوم قرضوں میں تو دبی رہے مگر ترقی و خوشحالی کی منزلیں تیزی کے بجائے ذراکنجوسی سے طے کرے اور ایساہی تو دوست نما مُلک دُشمن عالمی طاقتوں کا بھی ایساہی ایجنڈالگتاہے جنہوں نے ہمیں قرضوں کے چسکے میں جکڑدیاہے۔بہرکیف ..!!اَب عوام اپنی خیربنائیں ، اور مُلک میں مہنگائی کے آنے والے نئے طوفان سے نبردآزما ہونے کے لئے اپنی کمر کس لیں ، یہاں مجھے عوام کو آنے والے دِنوں میں حکومت کے مہنگائی سے متعلق کئے جانے والے سینہ زور اور سر پھوڑ اقدامات سے ڈرانے کا مقصد یہ ہے کہ بقول سرکار پچھلے دِنوں ن لیگ کی حکومت اور آئی ایم ایف( عالمی مالیاتی ادارہ )کے درمیان ایک دوسرے کی باہمی رضامندی سے ہونے والے اپنی نوعیت کے انتہائی کامیاب ترین مذاکرات کے بعد پاکستان کو 53ارب 21کروڑ روپے کی آئندہ ماہ ملنے والی وہ قسط سے جو مُلک میں مہنگائی کے نئے دروازے کھول دے گی ملے گی اور پھریوں آئی ایم ایف سے قرضے کی شکل میں ملنے والی قسط اورعالمی مالیاتی ادارہ سے عوام دُشمن باہمی ڈکٹیشن کے ساتھ ہی عوام پر مہنگائی اور بھوک و افلاس اور تنگدستی کا ایک طوفان برپاکردیاجائے گا جس کے لئے ابھی ہی سے عوام کو اپنی کمر کَس لینی ہوگی ورنہ عوام آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں حکومت و آئی ایم ایف کے عوام دُشمن اقدامات سے زندہ درگورہوجائیں گے۔
قبل اِس کے کہ ایسا کچھ ہو اور عوام تب اپنی بقاو سا لمیت کے لئے اِدھر اُدھر سر بھی پٹکتے رہیں اور تب کوئی بھی اِن کے زخم پر برہم اور پھارکھنے والا بھی نہ ہو، سو ابھی سے ہی عوام آئی ایم ایف اورحکومت کی باہمی گٹھ جوڑ سے ملنے والی 53ارب 21کروڑ روپے کی قسط کے بعد حکومت کے عوام دُشمن اقدامات سے نمٹنے کے لئے تیار رہیں تو ٹھیک ہے ورنہ پھر….؟؟؟عوام خود پچھتائیں گے۔
Ishaq Dar
بہر حال ..!!خبرکے مطابق وفاقی وزیرخزانہ مسٹر اسحاق ڈار نے کہاہے کہ ٹیکسوں میں اضافے کا ہدف پورانہیں ہوسکاہے ،تاہم وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف میں کامیاب ترین مذاکرات ہوئے جس میںباہمی رضامندی سے یہ فیصلہ کیاگیاہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف 503ملین ڈالر کی اگلی قسط جاری کرے گا جس کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹیو بورڈ دے گا جس کے بعد پاکستان کی قرضے لینے والی خالی جھولی میں کئی ملین ڈالر کی قرضوں کی پہلی قسط ڈال دی جائے گی یوں 50کروڑ 50لاکھ ڈالر کی دسویں قسط آئندہ ماہ رجاری کردی جائے گی جبکہ حکومت کا یہ خیال اور کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروںسے نومبرتک 900ڈالر ملیں گے حکومت کا کہناہے کہ اِن دِنوں معاشی اہداف پورے کررہے ہیں، ستمبرتک زرمبادلہ کے ذخائر 20ارب ڈالر سے زیادہ تھے اور سالِ رواں اور اگلے سال کے اوائل تک آئی ایم ایف سے تمام اقساط مل جائیںگیں اِس سے جہاں مُلک میںزرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگاتو وہیں مُلکی معیشت میں بھی قدرے استحکام آجائے گا۔
تاہم راقم الحرف کا قوی خیال ہے کہ ایسے میں حکومت کے قرضوں کی بنیاد پر ایسے خوش کُن دعوے کسی حد تک درست تو نہیں کہے جاسکتے ہیں مگر جیسا کہ آج حکومت خود بھی خواب دیکھ رہی ہے اور اِس کوشش میں مصروفِ عمل ہے آج جیسے خواب یہ دیکھ رہی ہے اَب ایسے ہی خواب حکومت اپنی پاکستانی عوام بھی دیکھائے تو ایسا نہ ممکن ہے کیوں کہ آج عوام یہ بات اچھی طرح جانتے اور سمجھتے بھی ہیں کہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے جتنے بھی قرضے لے لے اور لاکھ سیراب نما دلفریب و خوش کن خواب دیکھ لے اور عوام کو دکھانے کی کوششیں کرلے مگر عوام اِس کی کسی بھی بات پر یوں یقین نہیں کریں گے کیوں کہ عوام کو اِس کا پوراپورا یقین ہوچکاہے کہ ماضی کی حکومتوں سے لے کرآج تک(یعنی کہ موجودہ حکومت نے بھی) اپنے دو ڈھائی سالہ دورِ اقتدار میں عالمی مالیاتی اداروں سے جتنے بھر قرض لئے ہیں اِن کے ایک رتی برابربھی ثمرات عوام الناس تک نہیں پہنچے ہیں اگر(ماضی اور حال کا جائزہ لیاجائے تو) کوئی ایک بھی ثمر عوام کو کبھی نہیں ملا ہے تو آج عوام کیسے یقین کرلیں کہ اِب موجودہ حکومت عوام کو کسی معاملے میںکوئی ریلیف دے گی کیوں کہ ماضی کی حکومتوں نے عالمی اداروں سے ملنے والی رقوم کو مُلکی تعمیرو ترقی کے منصوبوںمیں لگانے کے ساتھ ساتھ اِسے عوام کومہنگائی اور بھوک وافلاس سے ریلیف دینے کے لئے کبھی بھی خرچ نہیں کیا ہے اگر کبھی حکومتوںنے عوام کو ریلیف دینے کے لئے کبھی رتی برابر بھی خرچ کی ہوتی تو بیچاری پاکستانی عوام کو سُکھ و چین کا کچھ سانس نصیب ہوتامگر ہائے رے افسوس کہ پاکستانی حکومتوں نے جب جب عالمی مالیاتی اداروں یا آئی ایم ایف سے مذاکرات کی کامیابیوں یا ناکامیوں کے بعد ناک گڑ کر جیسے بھی قرضے یا امداد لی ہے..اِسے کب اور کہاں عوام کے ریلیف کے لئے خرچ کیاہے..؟ اِس کا عوام کو تو کچھ علم نہیں مگر اُن قرضوں اور امداد سے کبھی بھی عوام کو سُکھ اور چین نہیں ملا ہے۔
اِس مرتبہ بھی عوام کو ایساہی لگ رہا ہے کہ عوام کے حصے میں سوائے مہنگائی اور بھوک وافلاس کے کچھ نہیں آئے گاجیساکہ وفاقی وزیرخزانہ مسٹر اسحاق ڈار یہ دعویٰ کرتے نہیں تھک رہے ہیں کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے کامیاب ترین مذاکرات کے بعد بہت جلد جو کئی ملین ڈالرز کی اقساط ہمیں ملیں گیں وہ مُلک کی ترقی اور مُلک سے غربت کے خاتمے کے لئے سنگِ میل ثابت ہوں گیں اور غریبوں کی زندگی کا معیار بلند ہوگا عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ، یہاں ایسا کچھ نہیں ہے جیساکہ اسحاق ڈار دعویٰ کررہے ہیں۔
جبکہ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت پراپنی یہ بات دوٹوک الفاظ میں واضح کردی ہے کہ ” پاکستان مالی خسارے کا ہدف پورانہیں کرسکاہے، حکومت ِ پاکستان کو اپنا خسارہ کم اور ختم کرنے کے لئے بلاامتیاز اور ہر سطح پر ٹیکس کلچر کو پروان چڑھانا ہوگا اِس کے لئے حکومت پاکستان کو سخت ترین اقدامات کرنے ہوں گے اور ٹیکس کی وصولی کی شرح کو بڑھانا ہوگا جس کے بغیر حکومتِ پاکستان اپنا مالی خسارہ کبھی بھی کم اور ختم نہیں کرسکتی ہے“۔یہ وہ ڈکٹیشن اور ہدایات ہیں جو آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں نے ن لیگ کی حکومت کے وفاقی وزیرخزانہ مسٹر اسحاق ڈار کو سمجھاتے ہوئے کہاہے اور اسحاق ڈار سے وعدہ لیاہے کہ وہ ایساکریں گے تو ہم اِنہیں قرضے دیں گے اور اگر یہ ایسانہیں کریں گے تو ہم اِن کی پھیلی ہوئی جھولی میں پڑی ہوئی اپنے قرضوں کی اقساط کو بھی واپس لے لیں گے۔