سرکاری ادارے اور غریب عوام

Equal

Equal

تحریر: عقیل خان
تمام انسان آدم کی اولاد ہیں۔ اسلام میں تمام انسان برابر ہیں۔ کسی امیر کو غریب پر، کالے کو گورے پر اور عربی کو عجمی پرکوئی فوقیت حاصل نہیں۔ مگر ہمارے موجودہ دور میں انسان نے انسان میں واضح فرق کردیا ہے۔ فرق کیوں نہ محسوس کریں کیونکہ اس فرق کی لائن ہم نے خود کھینچی ہوئی ہے ۔ زندگی کے کسی بھی میدان میں دیکھ لیں آپ کو واضح فرق محسوس ہوگا۔بزنس کا میدان ہویا سیاست کا، کھیل کا میدان ہو یا تعلیم کا۔ مثال کے لیے آپ سیاست کے میدان کو ہی لے لیں وہاں پر وزراء کو ایم این اے پر فوقیت حاصل ہے اور ایم این اے کے در پر ان کے خاص کارندوں کو اہمیت ملے گی اور غریب عوام کیا ملے گا اس کوتوبس ملیں گے تو صرف دھکے۔ عوام کو کہیں پر امیر غریب کا احساس دلایا جاتا ہے توکہیں ان پڑھ اور پڑھے لکھے کا فرق بتایا جاتا ہے۔

عوامی مسائل کے حل کازیادہ تعلق براہ راست یا بالواسطہ طور پر سرکاری اداروں سے ہوتا ہے۔ زندگی کے تمام ہی شعبے کسی نہ کسی طرح سے سرکاری اداروں سے منسلک ہوتے ہیں۔ نجی شعبوں کا بھی سرکاری اداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کسی بھی شعبے کے معاملات کو چلانے کرنے کیلئے سرکاری سطح پراتھارٹی قائم کی جاتی ہے۔ اسی طرح کسی بھی شعبے کے معاملات کو کنڑول کرنے کیلئے سرکاری سطح پر کنڑولنگ اتھارٹی قائم کی جاتی ہے جس کامقصد عوامی مسائل حل کرنا ہوتا ہے۔ عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں سرکاری اداروں میں ملازمین بھرتی کئے جاتے ہیں ان کی اجرت کی ادائیگی عام طور پر عوام کے پیسوں سے ہی کی جاتی ہے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو یہ عوامی ملازمین ہوتے ہیں، لہذا عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں سرکاری ملازمین کو عوامی ملازمین بننا چاہئے اس لئے کہ انہیں تنخواہیں اور دیگر مراعات عوامی خدمات کے عوض دی جاتی ہیں۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ عوامی پیسے سے تنخواہ لینے والے لوگ عوام کو اپنے دفاتر میں کیوں ذلیل کرتے ہیں ؟ کیا تمام دفاتر کے لوگ سفارش یا رشوت کو ہی اہمیت دیتے ہیں؟ ان کی نظر میں خدمت خلق کی کوئی اہمیت نہیں؟ اگر میں اداروں کا تذکرہ کرنا شروع کروں تو بہت زیادہ ٹائم درکار ہوگا مجھے لکھنے کے لیے اور آپ کو پڑھنے کے لیے مگران اداروں کے افسران اور ہمارے حکام بالا کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ میں نے کچھ دن پہلے عوامی مسائل کا جائزہ لینے کے لیے مختلف اداروں کا رخ کیا تاکہ دیکھا جائے کہ واقعی جو میں نے سنا وہ سچ ہے یا پھر ایسے ہی لوگوں نے باتیں بنا رکھی ہیں۔

Outside a Bank to Pay a Utility Bill

Outside a Bank to Pay a Utility Bill

اپنے بات آگے بڑھا نے سے پہلے سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا غریب عوام کے مقدر میں لائن میں لگنا فرض ہوگیا ہے۔ آپ یوٹیلیٹی بل جمع کرانے جائیں بنک ہو پوسٹ آفس لائن ضروری ہے، آپ NIC بنوانے جائیں تونادرا آفس میں لائن میں کھڑے ہوں، آپ پاسپورٹ آفس جائیںتوادھر بھی لائن میں لگنا فرض ہے حتٰی کہ اب تو ہسپتال میں بھی لائن لگنا شروع ہوگئی ہیں۔ان لائنوں میں صرف غریب لوگ ہوں گے باقی سب بائی پاس جائیں گے۔ یہ لائنز صرف غریب بندے کا مقدر کیوں بنی ہوئی ہیں۔کبھی کسی گاڑی میں سے اترنے والے کو لائن میں کھڑے دیکھا گیا ہے؟ کسی سیاسی شخصیت یا اس کے سفارشی کے لیے لائن میں کھڑا ہونا جرم کبیرا ہے کیا؟رشوت دینے والے کے لیے لائن کہاں گئی؟ کوئی ہمارے حکام بالا سے پوچھے جو امیرلوگ ہیں ان کے پاس تو پہلے ہی دولت کے انبار ہیںاور ان کے پاس وقت کی کمی بھی نہیں تو پھر ان کو پروٹوکول کیوں دیا جاتا ہے جبکہ غریب آدمی جو دھاڑی (مزدور) کرکے رات کو اپنے بچوں کو روٹی کھلاتا ہے اس کو ہم سارا دن لائن میں لگاتے ہیں تاکہ اس کا خاندان رات کو بھوکا سوئے۔

ایک دن میں جب پاسپورٹ آفس پہنچا تو وہاں ایک لمبی لائن نظر آئی جبکہ ابھی آفس کھلنے میں ٹائم باقی تھا۔ لوگوں سے معلوم کیا کہ اتنی جلدی آنے کی وجہ کیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ جناب ہم اپنا وقت بچا رہے ہیں اگر ہم دیر سے آئیں گے تو ہمیں لائن میں تو تب بھی لگنا ہے اور دیر سے آنے کی وجہ سے ہمارا نمبربھی دیر سے آئے گا۔ جلدی آنے کا یہ فائدہ ہے کہ ہم جلدی فارغ ہوجائیں گے اور جا کر اپنے بچوں کی روزی روٹی کما سکیں گے۔وہاں پر میں نے دیکھا کہ لوگ چور دروازے سے اندر آتے رہے اور اپنا کام کروا کر جاتے رہے ۔مجھے یہ دیکھ کر حکام بالا پر بہت افسوس ہوا کہ غریب آدمی کا ان دفتروں میں کوئی پرسان حال نہیں۔

Nadra

Nadra

اسی طرح میں نادرا کے آفس گیا تو ادھر بھی یہی حال تھااور تقریباً اسی طرح کی وضاحتیں وہاں کے لوگ کرتے رہے۔ لیکن جو چیز ان اداروں میں میں نے دیکھی وہ میرے لیے ہی نہیں ہم سب کے باعث تکلیف ہے۔کیا ہمارا مذہب ہمیں یہی سبق دیتا ہے ؟ اپنے آپ کو اسلام کا داعی کہنے والے کیااس طرح غریب کے ساتھ زیادتی کرتے رہیں گے؟ کیا پاکستان میں غریب کا جینا اسی طرح مشکل رہے گا؟ غربت ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والے صرف غریب کے نام پر سیاست کرتے رہے گے؟ اگر ہمارے مقدر میں لائن میں لگنا ضروری ہے تو پھر دفتر میں بیٹھنے والوں کی تعداد ہی بڑھا دیں۔مجھے اپنی ہی بات پرایک لطیفہ یاد آگیا کہ ”ایک بادشاہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ کیا بات ہے ہماری عوام کبھی ہمارے دربار میں سوال لیکر نہیں آئی؟

کیا ہماری عوام ہم سے اتنی خوش ہے ؟ درباریوں نے بادشاہ کو مختلف حیلے بہانوں سے مطمئین کردیا۔ بادشاہ کو سکون نہ ہوا اور اس نے عوام کو اپنے دربار میں بلانے کے لیے مختلف طریقوں سے تنگ کرنا شروع کردیا مگر عوام پھر بھی بادشاہ کے دربار میں حاضر نہ ہوئی۔آخرتنگ آکر بادشاہ نے عوام کو چھترلگوانا شروع کردیاعوام پھر بھی شکایت لیکر نہ پہنچی۔جب کچھ نہ بن پایاتو بادشاہ خود عوام کے پاس جا پہنچا اور ان سے پوچھا کہ تمھیں مجھے سے کوئی تنگی تو نہیں؟ عوام نے بڑی سادگی سے کہا کہ بادشاہ سلامت ہمیں کوئی تنگی نہیں بس چھتر لگانے والوں کی تعداد بڑھا دی جائے تاکہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو۔” آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔

لائنوں میں کھڑے ہوناکر اور دفاتر میں دھکے کھا نا اب ہماری عادت بن گئی ہے اسی لیے اب ہم کسی سے گلہ نہیں کرتے۔ اب تو سڑک پر کھڑے ہوکر وی آئی پیز کو نکلتے دیکھنا اور اپنوں کو موت کے منہ میں جاتا دیکھنا بھی معمول بن گیا ہے۔آخر کب ہم بیدار ہونگے؟ سوچئے اور غور کیجئے۔

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر: عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com