تحریر : پیر توقیر رمضان مختلف ادوار کے دوران پاکستان پر حکومت کرنیوانے حاکم خود تو شہنشاہ بن گئے عوام اور پاکستانی مالیتی کے اداروں کو کنگال بنا ڈالا جس کے بعد پاکستان میں عوام کا معیار زندگی بہت متاثرہور ہا ہے، آئے روز مختلف ہیلوں بہانوں سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھادیا جاتا ہے جس سے بلاشبہ معیار زندگی گررہا ہے، سال2013 کے دوران ہونیوالے جنرل انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) کی حکومت منتخب تو ہو گئی مگر ان کے دعوے ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
صوبہ پنجاب میں میاں شہباز شریف نے کافی حد تک تبدیلی تو لائی مگر بدقسمتی سے وہ سرکاری اداروں میں جاری کرپشن کا سلسلہ نہ بند کرسکے، یہی وجہ ہے کہ میاں شہباز شریف صاحب اور ان کی ٹیم کے دعوئوں کے باوجود صوبہ پنجاب کے اداروں میں کرپشن کا سلسلہ بند نہ ہونے کی وجہ سے ان کے دعوئے صرف اور صرف دعوئے ہی رہ گئے ، آج بھی صوبہ پنجاب کے اداروں کا حال وہی ہے جو انکی حکومت سے قبل تھا، نوازشریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم تو بنا دیا گیا مگر اس کے بعد پاکستان میں کوئی بڑا پراجیکٹ کا آغاز نہ ہوسکا ، بلکہ ہیلوں بہانوں میں سال نو میں دو بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کرکے عوام کو پریشانی کے سیلاب میں دھکیل دیا گیا، جو ایک بہت بڑا المیہ ہے ،ہماری حکومت کی طرف سے عوام کو درپیش غربت، مہنگائی،کرپشن،انصافی،لاقانیت جیسے مسائل سے نجات دلانے تو دور پہلے ہمارے شہنشاہ حکمران دنیا کی سیر تو کرلیں، نواز شریف کی نااہلی کے بعد نواز شریف کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے تھا مگر اس صورتحال اس کے برعکس ہے ان کے پروٹوکول میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ضرور ہوا ہے۔
آج کے مہنگائی کے اس دور میں غریب مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آکر اپنے بچوں کے ہمراہ آئے روز خودکشیاں کررہے ہیں،مگر ہمارے بادشاہ حکمرانوں کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگتی ،پہلے دور میں تو بچے کا روشن مستقبل بنانے کیلئے اسے اعلیٰ تعلیم کے لئے دور دور کے علاقو ں تک بھیجا جاتا تھا مگر آج کے اس دور میں چلتا ہے تو صرف پیسہ جو حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ،آج کسی غریب کا بچہ اگر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد نوکری کا منتظر ہو تو اداروں میں نوکری کے حصول کے لیے لاکھوں روپے طلب کر لیے جاتے ہیں، جس کے گھر کا چولہا دو وقت بمشکل چلتا ہے وہ انہیں لاکھوں روپے کیسے اور کہاں سے دے دوسری طرف ایک امیر کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریںیا نہ کریں انہیں پتہ ہے رشوت دیں گے تو نوکری مل جائے گی۔
ترقی کے اس دور میں پاکستان کی عوام بدحالی کا شکار ہے عوام کو لاتعداد مسائلوں کا سامنا ہے، پاکستان میں بے روزگاری جیسا دیرینہ مسئلہ آئے روز کم ہونے کی بجائے بڑھتا جار ہے ،حکومتی بوجھ تلے دبی عوام پر بوجھ کم کرنے کی بجائے اضافہ کیا جارہا ہے، ایک اندازے کے مطابق اگر پاکستان کا بے روزگاری کا مسئلہ حل کیے بغیر پاکستان سے غربت کا مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا ،پاکستان میں تقریباً70 فیصد عوام بے روزگار ہے۔
حکومت پنجاب کے روشن پنجاب کے پروگرام بدقسمتی سے صرف اور صرف ٹیلی ویژن پر تشہیر کی حد تک ہی رہ گئے،جنرل انتخابات سے قبل عوام کو طرح طرح کے سبز باغ دیکھا کر ووٹ تو حاصل کرلیا جاتا ہے مگر ان پر آج تک عمل نہ ہوسکا جو ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے ،اگر پاکستان سے غربت اور بے روزگار ی کا خاتمہ نہ کیا گیا تو پاکستان کی خودکشیاں کرنیوالی عوام کی تعداد میں بہت اضافہ ہوجائے گا جو کہ حکومت کے ذمہ ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اپنی انسپکشن ٹیم کو ہر ضلع،تحصیل کے لیول پر اچانک بغیر کسی اطلاع کے ہر دفاتر میں بھیجے تو ہر قسم کی صورت حال سے پردہ چاک کیے جانے کے ساتھ ساتھ بہت سے افسران رنگے ہاتھوں گرفتار بھی ہوسکیں گے ،مگر بد قسمتی سے وہ افسران بھی انہی حکومتی مشیروں اور وزیروں کے کارندے ہیں جو انہی ہر قسم کی اطلاع دیتے ہیں۔
حکومت کی طرف سے تو ٹیم بغیر اطلاع ہی آئے گی مگران کے مشیر ہر قسم کی اطلاع اپنے کارندوں کو بھیجتے ہیں، ہماری حکومت جب تک خود کام اپنی نگرانی میں نہیں کروائے گی اس وقت تک مسائل کا خاتمہ تو دور مسائلوں کے خاتمہ کے متعلق سوچنا بھی غلط ہوگا، دوسری حکومت کو چاہیے کہ طرح طرح کے روشن پراجیکٹس کی تشہیر بند کرکے ان کا آغاز کرکے پاکستان کی غریب اور بے روزگارعوام کو روزگاری فراہم کرے تاکہ ان کے گھر میں دو وقت چولہا بآسانی جل سکے ،مگر ہماری حکومت صرف اور صرف ووٹ لینا ہی جانتی ہے،جو ملک و قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔