تحریر : صادق مصطفوی خواجہ آصف پر سیاہی پھینکے کے بعدآج 11 مارچ 2018 کو لاہور میں جامعہ نعیمہ مدرسہ میں نواز شریف پر جوتا پھینکا گیا ہے، جو کہ ایک نامناسب عمل ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کی ہر باشعور شخص مذمت کر رہا ہے۔ کسی کو پسند یا نا پسند کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اخلاقیات کا درس ہی بھول جائیں ۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے ۔ اور اسلام کی تعلیمات میں ایسے عمل کی کہیں بھی تعلیم نہیں دی گئی۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہر شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہے اور اس کا وہ روز قیامت جوابدہ ہو گا۔ کسی کی تذلیل کا حق اسلام میں کسی کو نہیں دیا گیا۔ اسلام احترام انسانیت کا دین ہے۔ اگر ہم اس کو پاکستان کے قانون کی نظر سے دیکھیں تو بھی ایسے عمل کی کسی صورت اجازت نہیں ہے۔ قانون کے مطابق کسی بھی مجرم کو سزا دینے کا حق صرف عدالت کو ہے اگرعدالت اس پر اپنا فرض ادا نہیں کرتی اور انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں دیتی توقاضی کے منصب پر فائز جج صاحبان قیامت کے دن اللہ کے سامنے حساب دیں گے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک عوامی جلسہ میں نواز شریف نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی سال 2014 کے دھرنے کے دوران سٹیج پر گیس کے غباروں کے ایک ساتھ پھٹنے پر دھماکے کی آواز پر ہونے والے ایک فطری عمل کی نقل اتاری تھی اور چند ماہ میں ہی مکافات عمل دیکھیں کہ وہ نقل اتارنا حقیقت بن گیا۔ اس کو ہی تو کہتے ہیں کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔ نواز شریف ایک قومی مجرم ہے ۔ اس کو نااہل قرار دے کر وزارت عظمی اور پارٹی صدارت سے ہٹایا جا چکا ہے، اور مزید مقدمات میں اس کے خلاف عدالتوں میں کیس زیر سماعت ہیں۔ اور ان مقدمات کا فیصلے بھی آئندہ چند ماہ میں سامنے آنے کی امید ہے۔
عوام کی طرف سے ایسے ردعمل کا سامنے آنا کوئی حیرانگی کا باعث نہیں ہیں ۔ لیکن ایسے عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں ،امریکی صدر کے ساتھ بھی ایسا حادثہ ہو ا ہے۔ لیکن ایسے واقعات کی سب ممالک کی طرف سے ہمیشہ مذمت ہی کی گئی۔
نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد عوامی عدالت کے فیصلے کی بات کرتے نظرآتے ہیں ۔ اور اپنے جلسوں میں آنے والے افراد کی شرکت کو عوامی عدالت کا فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ تو کیا اس طرح کے عوامی فیصلوں کو بھی قبول کریں گے ؟ ۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو عوام ان کرپٹ سیاستدانوں سے تنگ آ چکی ہے ۔ جن کو صرف اپنی کرپشن بچانے کی فکر ہوتی۔ سینٹ کے الیکشن میں سب نے منڈی لگی دیکھی ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد5سال تک اپنے حلقے کی عوام کو شکل تک نہ دیکھائیں ۔ اپنے ووٹرز کے بنیادی مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہ ہو۔ جب سیاستدانوں کی عوام سے دوستی کا یہ حال ہو تو عوامی عدالت سے ایسے ہی نامناسب فیصلہ جات ہی ہوں گے۔
پاکستان کی تمام جماعتوں کے قائدین کو ایسے عمل کی مذمت کرنی چاہیے اور اپنے کارکنوں کوسختی سے ہدایات کرنی چاہیے اور ایسی حرکات کرنے والے کارکنوں کو اپنی جماعت سے خارج کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ علماء اکرام کو بھی اپنے درس و تدریس میں ایسے عمل کی نفی کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں عوام کی رہنمائی فرمانی چاہیے۔