تحریر : عبدالجبار خان دریشک ملک میں دن بدن بڑھتا ہوا مہنگائی طوفان جس کی شدت میں کمی ہو نے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آرہے روز مرہ استعمال کی اشیاء سبز یا ں ‘پھل ‘دالیں ‘ وغیر ہ عام آدمی کی پہنچ سے دورہو تی جارہی ہیں پاکستان ایک زرعی ملک ہو نے کے باوجو دہ بھی ملکی ضروریات کے لئے سبز یاں پھل اورزرعی اجناس باہر سے درآمد کرنا پڑتی ہیںملک میں ہر پانچ چھ ماہ بعد کسی نہ کسی چیز کا بحرا ن کھڑا ہو جاتا ہے ایسا کیوں ہو تا ہے عا م پاکستان کی سمجھ سے بالا تر ہے بحران کو قابو میں لانے کی بجا ئے عوام کو مفت مشورے اور ٹو ٹکے بتا ئے جاتے ہیں کیا ہو اٹماٹر مہنگا ہے توآپ ٹماٹر کی بجا ئے دہی کا استعمال شروع کر یں دال کی بجا ئے مر غی کھا ئیں مر غی دال سے سستی ہے۔
اگر رمضان میں پھلولوں کی قیمتیں زیاد ہتھیں تو با ئیکاٹ کر کے دل کو تسلی دے دیں کہ ہم با ئیکاٹ پر ہیں یعنی جو قوت خرید رکھتا ہے وہ توکھا لے جو نہیں رکھتا وہ ایسے مفت مشوروں پر عمل کر ئے پاکستان دنیا میں زرعی پیداوار کے حوالے سے اپنا ایک مقا م رکھتا ہے جہاں پر اعلی قسم کی زرخیز زمینیں ‘ چاروں موسم ‘ او ردنیا کا بہترین نہر ی نظام مو جود ہے یہ سب جانا کر عام آدمی کا سرچکر ا جاتا ہے کہ کیا ملک میں ایسا کو ئی نظام مو جود نہیں ہے جس میں طلب اور رسد کے اعادہ وشمار جمع کیے جا تے ہوں جبکہ پوری دنیا میں میں وسائل ‘طلب ورسد ‘ اور مقامی پیداوار کے اعادہ وشمار جمع کر کے ماہرین اس بات کا جا ئزہ لتے ہیں کہ اس سیز ن میں کسی چیز کی کمی سے بحران تو پیدا نہیں ہو گا جس کے لئے وہ پہلے سے حکمت عملی تیا رکر کے اس بحر ان سے بچ جا تے ہیں یہاں اعادہ شمار جمع بھی ہوتے ہیں تو کا غذوں کی حد تک پھر ان اعادہ شمار کا جا ئز ہ لینے کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں ہو تااور نہ ہی کو ئی میٹنگ بلائی جاتی ہے جب اچانک پتہ چلاتا ہے کہ بحران تو سرپر آنا کھڑا ہے چلیں جب تک اس کا حل نہیں نکلتا عوام کو ٹوٹکے بتا ئے جا ئیں ایک تو یہ وجہ ہوئی بحر ان پیدا ہو نے کی دوسری وجہ سرمایہ درانہ نظام جو ہرشعبے میں اپنے پنجے گا ھاڑ چکا ہے۔
اپنے ذاتی مفاد کیخاطر انہوں نے نظام کا بیڑا غرق کر دیا ہے ان سرمایہ داروں کا منڈیوں پر مکمل قبضہ ہے ان کی مر ضی سے ریٹ طے ہو تے ہیں یہ لو گ کسان سے کم قیمت پر مال خر ید تے ہیںتو دوسری طر ف چھو ٹے دوکاند اروں کو مہنگے داموں میں فر وخت کر تے ہیںدوکاند ار بھی اپنا نقصان نہیں کر تا وہ یہ پیسہ عوا م کی جیب سے نکلتا ہے وہی پیسہ جب سرمایہ دار کی جیب میں منتقل ہو تا ہے تو وہ اور مضبوط و طاقت ور ہو جاتا ہے سرمایہ دار کی ہر طر ف نظر ہو تی ہے یہ اداروں سے زیادہ معلو مات اور اعادہ شمار سے واقف ہوتے ہیں کہ اس مر تبہ مو سمی صورت حال کیسی تھی کس فصل کو مو سمی تبدیلی کی وجہ سے نقصان پہنچا اور کتنی حد تک پیداوار میں کمی ہو ئی ملکی صورت حال کیا ہے اندرونی اور بیر ونی سب حالات پر ان کی نظر ہو تی ہے ٹماٹر کے بحران کا ان کو پہلے سے پتہ تھا متعلقہ اداروں کو ہو نہ ہو لیکن ان کے علم میں تھا کہ اس مر تبہ گرمی زیا دہ پڑنے سے پیداروار میں کم ہو گی ویسے بھی اس مو سم میں میدانی علا قوں میں ٹماٹر کی فصل نہیں ہوتی عمو ما ً پہاڑی علاقوں کا ٹماٹر ہی ضرورت پوری کر تا ہے جبکہ بھارت اور افغا نستان سے کشید ہ حالات کی وجہ سے تجارت بند ہے یہ بھی ان کے علم میں تھا جب عید سے پہلے ٹماٹر بیس روپے کلو تھا تو عید پر انہوں نے مصنو عی قلت پید ا کر دی سا را ما ل کچھ دونوں کے لئے اپنے کولڈ سٹو ڑز میں سٹاک کر لیا تا کہ ایک بہانا بنا رہے اس مر تبہ ٹماٹر کا بحر ان ہے۔
اس بہانے منہ ما نگی قیمت وصول کی جا ئے اور ایسے ہی ہو ا انہوں نے بیس روپے کلو والے ٹماٹر کو دوسوسے کراس کر وا دیا واقعی سرمایہ درانہ نظام انسا نیت سے خالی ہو تا ہے ان کو انسانوں کی فکر کی بجا ئے اپنے مال کو بڑھانے کی فکر ہو تی ہے کیسے اس کو دوسے تین گنا ہ اور پھر کئی گنا ہ بڑھانا ہے ہمارے دین اسلام میں کاروبار کرنے منافع کما نے اور دولت و جا ئیدا د بنا نے کی کو ئی قید نہیں ہے اگر جا ئز طر یقے سے بنا ئی جا ئے تو ‘دین اسلام زندگی کے ہر شعبہ میںہماری مکمل رہنما ئی کر تا ہے ایسے ہی ہمارے دین نے کاروبار اور تجارت کے صا بطے اور اصول بتا ئے ہیں منا فع لینا جا ئز ہے پر زیادہ منا فع لینازیادتی ہے ذخیر ہ اند وزی کر کے کسی بھی چیز کی قلت پید ا کر نا اور پھر منہ ما نگے دام پر فروخت کر نا بھی ناجا ئز عمل ہے روپے پیسے کی چمک نے ان کی آنکھوں پر پٹی با ندھ دی ہے جن کونہ تو دین کے احکا مات نظر آتے ہیں اور نہ ہی انسا نیت کا درد محسوس ہو تا ہے۔
حکومت ایک بہتر حکمت عملی سے ان بحر انوں سے قابو پا سکتی ہے کھانے پینے کی اشیا ء کی ذخیر ہ اند وزی اور نا جا ئز منافع خوری کو کنٹرول کرنے کے لئے مو ثر اقدامات اٹھائے جا ئیں تو ان مسائل کا سامنا نہیں کر نا پڑے گا پیداوار کی کمی اور زیا دتی پر بھی مکمل نظر رکھی جا ئے کسی چیز کی کمی کے متعلق پہلے سے حکمت عملی تیار کر کے اس کا انتظام کیا جائے خاص کر منڈیوں میں آنے والے اور فروخت ہو نے مال کا مکمل ریکارڈہو تو اس شہر کی ضروریات کا بخٰوبی اندازہ ہو سکتا ہے آڑھتی کی اجا رہ داری کو ختم کیا جا ئے اس کے علاوہ آڑھتی کو پا بند کیا جا ئے کہ وہ چھو ٹے دوکانداروں کو بل بنا کر دے تا کہ پتہ چل سکے نا جا ئز منا فع کہا سے لیا جا رہا ہے کیونکہ دوکاندار کہتے ہیں منڈی سے مال مہنگے داموں ملا ہے ہم کیا کر یں ہماری مجبو ری ہے لیکن اس با ت کو ثا بت کرنے کے لئے ان کے پا س کسی قسم کا ثبوت نہیں ہو تا اگر آڑھتی نے ما ل مہنگا دیا ہے تو جر مانہ چھو ٹے دوکاندار کو لگتا ہے اصل جرما نہ اس پر ہو نا چا ہیے جو پہلے نا جا ئز منا فع لے چکا ہے ایسا مو ثر نظام بنا کر عو ام کو نا جا ئز منافع خوروں سے بچا یا جا سکتا ہے۔