جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
جسے وہ چاہے عزت دے جسے وہ چاہے ذلت دے٬ نواز شریف کے تیسرے سیاسی عہد کو چار سال بعد متنازعہ عدالتی تاریک فیصلے سے پل بھر میں ختم کر کے ملک کو عجیب انتشار میں مُبتلا کر دیا گیا٬ بین القوامی صحافتی اداریے فکر مند ہیں مگر ملک کے اندر صرف اپنی اپنی سیاست کو چمکانے پر زور دیا جا رہا ہے۔
اللہ سبحان و تعالیٰ نے اُس بستی یا قوم کو برباد کر دیا کہ جس نے نعمتوں کی قدر نہیں کی٬۔
آزادی کتنی بڑی نعمت ہے اور اس ملکِ خُداداد میں جس بے رحمی سے اس کو بے قدر کر کے ذاتیات کے رونے کانوں میں سنائی دے رہے ہیں٬ وہ اس سیاسی نظام کی نقاہت کے علمبردار ہیں۔
وہ مسلمان جس کو دوسروں کی بھلائی کیلیۓ خالق نے پیدا کیا ٬ وہ آج میں میں کی تکرار اور اپنی ذات کی برتری کے علاوہ کچھ سوچنے کے قابل نظر نہیں آتا۔٬ جو ہاتھ دینے والے تھے وہ کشکول تھامے لینے کے منتظر دکھائی دے رہے ہیں۔
سیاسی تکرار آخر کار اس شوریدہ موڑ پر آ گئی جسے ہم بند گلی کہ سکتے ہیں۔ آگے کیا ہونے جا رہا ہے محض قیاس آرائیاں اور دعائیں ہیں جو سوچتے تھے کہ نواز کو ہٹا کر وہ پاکستان کا نظام گرفت میں کر لیں گے ٬ جبکہ لگتا ایسا ہے کہ اصل سیاست اب شروع ہونے جا رہی ہے۔
پاکستان کی وہ مخصوص سیاست جو مردانہ جوشیلے انداز کی پاسبان تھی٬اب ہم وہ دلیرانہ سیاست دیکھنے والے ہیں٬ بھاری بھرکم لہجوں اور طعن و تشنیع سے مبراء حقائق کی دلیل کی سیاست آج سے شروع ہونے جا رہی ہے۔
لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ لہرا لہرا کر ایک دوسرے کو معتوب ٹھہرانے والے اب شائد دکھائی نہیں دیں گے۔
نواز شریف ہمیشہ کی طرح شاندار پرسکون باوقار انداز سے اللہ سے دعا اور صدقے کے بعد سفرکا آغاز کر چکے ہیں ۔
سفر کی ابتداء میں ہی عوام نے فیصلہ دے دیا ہے کہ وہ ابھی تک اپنے موقف پر قائم اپنے رہنما کے ساتھ بڑی تعداد میں کھڑی ہے۔
عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سڑکوں پر بتا رہا ہے کہ اگر کوئی مشکل اس کے سامنے آئی تو یہ عوامی سمندر اپنے بہاؤ میں اسے بہا لے جائے گا٬ ہجوم اپنی منزل پے جا کر دم لے گا۔
٬ ملک میں سب سیاسی جماعتوں کا جوار بھاٹا مسلسل طوفانی انداز میں اُبل رہا ہے٬ عوامی محبت ان کے جزبات ٹی وی سکرین بتا رہی ہے۔
مناسب تجزیہ یہی ہے کہ جب اتنا سخت فیصلہ اتنے اطمینان سے سن لیا گیا تھا تو چاہیے تھا کہ مُخالفین اپنے رویّے میں نرمی لے آتے اور چِڑا کر مزید ملکی فضا گرد آلود نہ کرتے ٬وہ وقت جو دوسرےسیاستدان اپنے خاندان کے ساتھ گزارتے ہیں ذہن کو آرام دیتے ہیں خاندان کے دیگر مشاغل میں حصہ لیتے ہیں٬ وہ سیاسی رہنما سیاست میانہ روی سے کرتے ہیں۔
کہ وہ ایک خاندان کے مالک ہیں ان کے چھ فرائض ہیں وہ 24 گھنٹے صرف سیاست نہں کر سکتے معتدل سیاست کے حامی ہیں تا کہ زندگی اور رشتوں کے دوسرے اہم تقاضے پورے کر سکیں۔
جوگھر رشتوں سے خالی ہوں وہ خاموش مکان بن جاتے ہیں 24 گھنٹے صرف آپ کے ہیں ٬ انہیں گزارنا ایک تنہا انسان کیلیۓ صبر آزما کام ہے۔
رشتوں کے بندھن سے آزاد سیاستدان کے ذہن ہر وقت سیاسی داؤ پیچ سوچتے ہیں جس سے عوام کی مزید توجہ حاصل کر سکیں اور مستقل ہجوم اپنے گرد قائم رکھ سکیں۔
ان کے پاس کوئی ہمدرد ذہن نہیں جو انہیں رشتوں میں رہتے ہوئے سیاست میں میانہ روی اپنانے کا مشورہ دے۔
اللہ پاک نے رشتوں میں حکمت رکھی ہے٬ فکر حفاظت احترام سب رکھ دیا اسی لئے نرمی نفاست تہذیب شائستگی گھر میں موجود رشتے خود بخود سکھا دیتے ہیں۔
ایک تنہا انسان سوچتا بھی خود ہے اور فیصلہ بھی خود کرتا ہے تنہائی اسے فرعونی جلال میں مُبتلا کر دیتی ہے ٬ وہ ہر قیمت پر بازی جیتنے کیلیۓ ہر حد سے گزرتا ہے۔
اللہ پاک ایسے افراد کیلئے قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ اللہ ان کے غلط اعمال کو ان کیلئے خوشنما بنا دیتا ہے۔
سیاست کا عجیب بے ہنگم مزاج ہو گیا کہ سیاست میں ایک سے سو سننا رواج بنا دیا گیا٬ کوئی سیاستدان اپنے دائرے میں نہیں رہتا جہاں شائستگی سے بولنا سیکھے ٬ خاندان میں ماں بہن بیوی بیٹی یہ سب وہ پیارے نرم رشتے ہیں جو ان سیاستدانوں کی زبانوں کو سختی سے روکتی ہیں٬ انکی معاشرتی تربیت کرتی ہیں۔
٬ سیاسی تلاطم کی وجہ ہی یہ ہے کہ ایک طرف یہ رشتے ناپید ہیں٬ جو الفاظ کو مناسب ادائیگی کا طریقہ سکھا سکیں٬ عام پاکستانی آج سیاست سے نفرت کرنے لگا ہے۔
آج بازی پلٹ چکی ہے ٬ زخمی شیر خطرناک انداز میں اپنے لوگوں کے پاس جا رہا ہے تا کہ مُخالفین پر اصل عوامی فیصلہ ثابت کر سکے کہ یہ عوام کس کی ہے؟ اسلام آباد سے لاہور تک کا سفرشہر جیسے جشن کے موڈ میں آگئے ٬ رت جگے پکوان ڈھول بھنگڑے شادیانے بچے بڑے بوڑھے سب کے چہروں پر چمک غمّاز ہے کہ وہ اپنے رہنما کو حوصلہ دلا رہے ہیں۔
کہ یہ سیاسی نشیب و فراز ہمیشہ سے آزمائش بن کر پہلے بھی آئے اور خس و خاشاک کی طرح بہ کر نجانے کہاں چلے گئے ٬ ایک بار پھر ایسا ہونے والا ہے؟ آج منظر تبدیل ہوگیا کل تک جو کنٹینر پر تھے وہ آج زمین پر کھڑے جیت کو ہار میں بدلتے دیکھ رہے ہیں٬ اور جو کل زمین پر کھڑے کنٹینر نامی بلا سے خفا تھے۔
وہ آج خود کنٹینر پر سوار خراماں خراماں ہر ذمہ داری سے عاری ہو کر مطمئین چہرے اور پرسکون دماغ کے ساتھ شہر شہر قریہ قریہ سیر کرتے چّپے چّپے کو قیام پاکستان کے مہینے میں نئے انداز میں دیکھیں گے۔
سیاسی انتشار مزید بڑہتا ہوا اس ملک کو اس کے باسیوں کو نجانے کیا دکھانے والا ہے٬ کل کی بات لگتی ہے جب ایک رہنما کو بار بار کہا جاتا تھا کہ دہشت گردی کا خدشہ ہے۔
آپ احتجاج نہ کریں وہ نظر انداز کرتے ہوئے کہتے تھے ٬ سیاسی رہنماؤں کی حفاظت حکومت وقت اور انٹیلیجنس اداروں سیکرٹ ایجنسیز کی ذمہ داری ہے ٬ میں اپنا کام کر رہا ہوں وہ اپنا کام کریں۔
آج یہ دہائیاں دے رہے ہیں اور سامنے صرف ایک لطیف سی معنی خیز مسکراہٹ میں جواب ملتا ہے۔
روانہ ہونے والے کہتے ہیں کہ عوام ہمارے ساتھ ہے٬ مخالفین کہتے ہیں کہ عوام نہیں نکلے گی ٬ وہ ہمارے ساتھ ہے۔
ہر سیاسی جماعت یہی جملے ستر سالوں سے کہ رہی ہے اس مظلوم قوم یا عوام کیلیۓ کہ ان سب کی سیاسی شعبدہ بازیوں سے اکتا کر “”عوام “” صرف اپنے لئے پُرسکون مطمئین باعزت باوقار خوشحال پاکستان چاہتی ہے۔٬
سال 1947 سے سال 2017 ان 70 سالوں میں سیاسی کھچڑیوں نے لوگوں کو معاشرتی طور پر غیر مستحکم کیا ہے وہ وقت سے پہلے بوڑھے اور نڈھال ہو چکے ہیں۔
رحم کھاؤ اس اداس عوام پر جو سیدھی اور سادی اس لئے سیاسی شکنجے میں کسی جاتی ہے کہ اسکو نہ تو معیاری ماحول ملا کہ ذہنی جِلا ملے٬ نہ ہی کوئی معیاری علمی درسگاہ جہاں سے شعور حاصل کر کے اپنے فیصلے خود کر سکے٬ ٬ نہ ہی کوئی مخلص باشعور رہنما جو انہیں ان کی طاقت کا احساس دلائے٬ جب کہیں سے کوئی نئی پُکار سنتے ہیں لپکتے ہیں کہ یہ ان کیلئے امید ہے کہ شائد یہ انسان اس کے مستقل اندھیروں کو اجالے میں بدل دے۔
اس بار اس حکومت کی کارکردگی کی تعریف نہ کرنا تاریخی جُرم ہوگا٬ اس بار وطن عزیز بنیادوں سے اٹھ ی اور موجودہ حکومتی اراکین کی دن رات کی کوششوں نے ملک میں سچی تعمیراٹھائی جو ہر عوامی نگاہ دیکھ رہی ہے۔
مگر حسب سابق اندرونی ریشہ دوانیوں اور سیاسی قہر نے یکلخت پھر سے ملک کو بد حال کر دیا٬ نواز شریف نے نا اہلی کا فیصلہ خاموشی سے مان لیا مگر گھر جاتے ہوئے وہ عوام سے ملاقات کر کے اس فیصلے کی تصدیق یا تردید چاہتے ہیں٬ گھر سے نکلتے ہی عوام کی عدالت دیکھتے ہی دیکھتے موجیں مارتے سمندر میں تبدیل ہو کر ان کو نویدِ صبح سنا گئی ٬ ان کا دور جاوداں ہوگیا٬ اللہ نے ان کو ان کا پھل عوامی رائے کی صورت دے کر آج سرخرو کر دیا۔