تحریر : حفیظ خٹک 9 برس قبل جب معروف اخبار نے ٹی وی چینل کا آغاز کیا تو شہر قائد میں سات رکنی کابینہ نے صحافیوں کے چناﺅ کیلئے مشترکہ انٹرویوکیا،90سے زائد مختلف اخبارات و ٹی وی چینلز کے نمائندوں میں سے 6افراد کا چناﺅ کیا گیا۔ ان صحافیوں سمیت ملک کے دیگر شہروں کے نمائندوں کو یہ کہا گیا کہ وہ اپنے شہر کی کسی بھی معروف جگہ پر تین جملوں کی ادائیگی کریں گے اور آخر میں اپنے نئے چینل کا نام پکاریں گے۔ شہر قائد میں کسی صحافی نے ساحل سمندر کا رخ کیا تو کسی نے مزار قائد کا، کسی نے نٹی جٹی پل کا تو کسی نے مصروف ترین شاہراہ کا ۔ان تین جملوں میں دو الفاظ ہم عوام تھے۔
یہ دو الفاظ 9 برس بعد بڑی شدت سے یاد آتے ہیں اور چند ماہ میں ان دو الفاظ کو سامنے رکھ کر کسی چائے کے ہوٹل پہ تو کسی مجلس میں، کسی عوامی جرگہ میں تو کسی سرکاری نیم سرکاری اور غیر سرکاری اجلاس میں ۔ کسی سیاسی رہنما تو کسی مذہبی جماعت کے سربراہ کے سامنے تو کبھی کسی بچوں کی تقریب میں۔ اس نجی چینل کے یہ دو الفاظ ہی پر اگر غور و خوض کر لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ عوام ہی تھے جنہوں نے اپنے رہنماﺅں کو منتخب کیا اور یہ رہنماﺅں نے اپنے انتخاب کے بعد انہیں ہی بھلا دیا۔ ہاں گر کھبی یاد کیا تو اس وقت اور ان لمحوں میں کیا جب انہیں دوبارہ نشستوں پر پہنچنے کیلئے انہی عوام کے ووٹوں کی ضرورت پڑی۔ قیام پاکستان سے قبل یہ برصغیر کے عوام ہی تھے جنہوں نے اپنے رہنماﺅں کی بات پر اپنا گھر، زمین، حتیَِ، کہ اپنی جانیں تک قربان کرڈالیں اور اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں آکر آبسے۔ یہ عوام کس طرح رہے ، کس طرح انہوں نے وہ پل پل گذارے یہ درد بھری داستانیں ہیں جو کہ عوام ہی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ رہنمااور عوامی رہنما ﺅں نے آغاز سے اب تلک کس طرح کے لائحہ عمل پر اپنے آپ کو گامزن رکھا یہ وہی جانتے ہیں۔
کسی بھی مجلس میں کسی بھی جگہ پر اگر عوام اپنے مسائل کا رونا رو رہی ہوتی ہے تو ان کے دکھوں کو دور کر نے انکی مدد کرنے والا کوئی نہیں آتا ہے، وہ روتے ہیں آنسو بہاتے ہیں، کچھ بڑھ کر جلسہ جلوس کرتے ہیں مظاہرہ کرتے ہیں، نعرے لگاتے اور لگواتے ہیں۔ تاہم جب مقاصد کے حصول کی جانب کچھ فاصلے بڑھتے ہیں تو بھی یہی عوام ہیں کہ منظم منصوبہ بندی کے تخت آپس میں ہی دست و گریباں ہوجاتے ہیں۔ عوام کو ہی مسائل نظر آتے ہیں اور عوام ہی ان مسائل کو سہتے ہیں۔ کسی کے علاقے میں گندا پانی ہے تو کوئی کسی موذی مرض میں مبتلا ہے۔ کوئی تعلیمی سہولتوں سے محروم ہے تو کوئی بنیادی طبی سہولتوں کیلئے نعرہ زن ہیں۔ شہر قائد سے پشاور تک کہیں بھی اطمینان و سکون نہیں ہے۔ ہر سو بے چینی و پریشانی ہے۔ یہ سادہ عوام نعرہ زن ہوتے ہیں لیکن جن کے سامنے یہ سب نعرہ زن ہوتے ہیں انہیں کچھ بھی دیکھائی اور سنائی نہیں دیتا ہے۔ تاہم اگر دباﺅ بڑھ جاتا ہے تو ایسے موقعوں پر یہ عوام کو تسلی مائیسین کا ایک انجکشن لگا دیتے ہیں ۔ پاکستان کی سادہ لیکن جذباتی عوام ان کی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سارے مسائل کا حل ہوگیا ہے۔ جبکہ حیقیقت کا احساس انہیں چند دنوں بعد ہو ہی جاتا ہے جب انہیں اس بات کا عل علم ہوتا ہے کہ جہاں ہم کھڑے تھے ہم تو وہیں پر ہیں۔ جو بھی مسائل تھے وہ سبھی ویسے ہیں ہیں۔
کسی نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا تو پاکستان کی سادہ عوام ان تینوں چیزوں کے حصول کیلئے ان کے پیچھے چل پڑے، وہ عوام تو اب تک انہی کے پیچھے چلے آرہے ہیں لیکن یہ نعرے لگوانے والے کہیں سے کہاں تک پہنچ گئے۔ عوام سادہ اور ذمہ دار عوام آج بھی وہیں پر ہیں جہاں سے یہ سب ان سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماﺅں کے پیچھے چلنا شروع ہوگئے تھے۔
کئی دنوں سے متعدد عوامی نمائندوں سے عوام سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر ان عوامی مسائل کا حل کیا ہے۔ یہ جو ڈھیر سارے مسائل ہی مسائل ہیں ان کے حل کیلئے وسائل کیا ہیں ۔سبھی نے اپنی دانست کے مطابق اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی تاہم دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ کے مصداف دل کو ذرا بھی تسلی ہوئی نہ ہی کوئی حل نظر آیا۔ نظر جب ملک کے حالات پر ڈالی تو ایک سابق وزیر اعظم کو یہ کہتے پایا کہ مجھے کیوں نکالا؟ یہ وہی وزیر اعظم ہیں جنہیں اس ملک کی عوام نے ایک نہیں بلکہ 3بار اس وطن عزیز کا سربرابہ بنایا لیکن انہوں نے تینوں باریوں کھبی بھی عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم اس وقت بھی اگر وہ سامنے بیٹھ کر اس موضوع پر بات کریںگے تو ان کا نقطہ یہی ہوگا کہ ہم نے تو بہت کچھ کیا، ہم اس ملک کو کہاں سے کہاں تک لے آئے لیکن ہمیں موقع ہی پورا نہیں دیا گیا۔غرض وہ اپنے آپ کو بے گناہ سمجھیں گے اور ذمہ دار عوام کو ہی ٹہرائیں گے۔
عجب حالات و واقعات ہیں جو اس وقت گذر رہے ہیں۔ وطن عزیز بین الاقوامی سازشوں کے تحت گھمبیر دور سے گذر رہا ہے۔ یہ عوام ہی ہیں جو کہ اس صورتحال کو سمجھ سکتی ہیں اور یہ عوام ہیں کہ جو پاک فوج و دیگر اداروں کے ساتھ قدم بقدم بڑھا کر موجود وسائل میں مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کرتے آئے ہیں۔ نت نئے مصائب و مسائل میں عوام نے ایک صف میں کھڑے ہوکر موجود حالات کا جوانمردی سے مظاہرہ کیا اور ان کو حل کر کے سکھ و سکون کا سانس لیا ہے۔ تاہم ان ساری باتوں کے باوجود ہم عوام ہی ہیں جو کہ ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔ ہم عوام ہی ہیں کہ جو ان نام نہاد رہنماﺅں کے پیچھے چلنے والے نہیں بلکہ ڈوڑنے والے ہیں اور جب ان رہنماﺅں کے اغراض و مقاصد پورے ہوجاتے ہیں تو وہ رہنما دانستگی کے ساتھ ایک جانب کو ہوجاتے ہیں اور عوام کو بیج منجھدار میں چھوڑ جاتے ہیں۔
اسی کشمکش میں سابق مزاحیہ اداکار معین اختر کا اک انٹرویو آنکھوں کے سامنے سے گذرا جس میں ان کاکہنا تھا کہ جب تک آپ اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کرتے ہو اس وقت تک نہ نظام ٹھیک ہوگا نہ نظام زندگی۔ لہذا ہم عوام ہی ہیں کہ ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔ اس عوام کو اب تو ہوش کے ناخن لے لینے چاہئےں ، بس اب بہت ہوگیا اپنی نیندوں سے بیدار ہوکر اب ہوش و حواس بحال ہوجانا چاہئے۔ہم عوام ہی اگر ذمہ داری کا مظاہری کرینگے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ مثبت تبدیلیں آئیں گی۔ یہ ہم 20کڑور عوام ہی ہیں جو کہ آج تلک کے حالات کے ذمہ دار ہیں یہ عوام ہی ہیں کہ جو یہ طے کرلیں کہ اب کی بار فیصلے اپنے لئے ہی نہیں اپنی آنے والی نسلوں کیلئے کرینگے۔ اس وطن اور اس ملک کیلئے کرینگے۔ جب یہ عوام طے کر لے گی تو امید واسق ہے کہ ہم عوام ہی اس ملک کو بنائینگے اور سدہارینگے۔ہم عوام ہی اگر یہ طے کرلیں کہ امریکہ میں برسوں سے قید قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس لے کر آنا ہے تو اس غرض کیلئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جگہ لینے والے نام نہاد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہیں تو پھر شہر قائد سمیت پورے ملک کی عوام میں حکومت وقت سے قوم کی بیٹی کی باعزت واپسی کا مطالبہ کریں تو کوئی بعید نہیں کہ امریکی حکومت کے سامنے پاکستان کی حکومت اس مطالبے کو رکھے اور وہ اسے پورا کردے۔ اس طرح سے قوم کی باعزت بیٹی کی باعزت رہائی کا عمل پورا ہوسکے گا اور ہم عوام سے کیا گیا وعدہ بھی پورا ہوپائے گا۔ بس ہم عوام کو ہی آگے بڑھنا ہے اور دیکھنا ہے۔ ہم عوام ملک کر وطن عزیز کے سب دشمنوں کو ہر طرح سے ناکام کریں گے، ہم عوام مل کر اس ملک میں وہ خواب پورے کرینگے جو قیام پاکستان کے وقت رہنماﺅں سمیت عوام نے دیکھے تھے۔ ہم عوام ملک کر آگے بڑھیں گے تو ان شاءاللہ ہم عوام بہت کچھ کرینگے۔ ۔۔