تحریر : سلطان حسین استاد نے شاگرد کے پیپرسے نظریں ہٹا کر اسے دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا ”تعجب ہے تم نے گائے پر لفظ بہ لفظ وہی مضمون لکھا ہے جو دوسال قبل تمہارے بھائی نے لکھا تھا ؟”شاگرد نے بڑی معصومیت سے جواب دیتے ہوئے کہا ”استاد جی میں نے بھی اسی گائے پر مضمون لکھا ہے جس گائے پر میرے بھائی نے مضمون لکھا تھا ابھی وہ گائے زندہ ہے ”میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں جو کالم لکھ رہا ہوں وہ بھی چار سال قبل اس شہر کے اہم مسلّے پر لکھے گئے کالم کی طرح لفظ بہ لفظ وہی ہے تاہم یہ ضرور کہوں گا کہ چار سال قبل میں نے جس مسلّے پر کالم لکھا تھا آج بھی وہی مسلّہ اسی طرح جوں کا توں موجود ہے کہتے ہیں کہ جہاں آبادی ہوتی ہے وہاں مسائل بھی ہوتے ہیں لیکن ان مسائل پر توجہ دینا اور اسے حل کرنا بھی حکومتوں ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے بہتر حکمرانی کی ایک یہ بھی نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ حکومتیں عوام کی تکالیف کو سمجھتی ہیں اور انہیں حل کرنے کی حتی الوسع کوششیں کرتی ہیںلیکن ہمارے ملک میں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے مسائل سے آنکھیں چراناآج کل کے حکومتی حکام کی روایت بن چکی ہے اور حکمران بھی اپنی کرسی مضبوط کرنے کے چکر میں مسائل کی طرف توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی حکام کو اسے حل کرانے کے احکامات دیتے ہیں جہاں حکمرانوں کا ذاتی اور انتخابی مفاد وابستہ ہو وہی کام ہوتے ہیں اور وہی مسائل حل ہوتے ہیںاسی لئے پشاور کے مسائل پر کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا۔
گذشتہ دو تین دہائیوں میں اس شہر کو حکمرانوں نے تقریباً کھنڈر بنا دیا تھا اب اگر کچھ صورتحال بہتر ہوئی ہے تو مسائل وہی بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں کئی مسائل میں ایک اہم مسئلہ آج کل پشاور کا نکاسی آب کا بھی ہے مسلسل عدم توجہ کے باعث اب اس مسئلے نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ بارش میں شہر سیلاب کامنظر پیش کرتا ہے گذشتہ دنوں چار دن کی مسلسل بارشوں نے ایک بار پھر منتخب نمائندوں کے ترقیاتی منصوبوں اور بیوروکریسی کی توجہ کا پول کھول دیا تھاشہر کے عام علاقے تو رہے ایک طرف پوش علاقوں کی سڑکیں بھی سیلاب کا منظر پیش کررہی تھیںکئی علاقوں میں نالوں کا گندا پانی گھروں میں بھی گھس گیاتھاجس سے مکینوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ مسائل آج کے نہیں گذشتہ تیس سالوں سے موجود ہیں حکومتیں آتی ہیں اس شہر کو پھولوں کا شہر بنانے کے دعویٰ کرتی ہیں اور انہی دعووں کے پس منظر میں اپنی سیٹیں اور اپنی حکومت مضبوط کرنے کی کوششیں کرتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن یہ مسائل اسی طرح موجود رہتے ہیں بلدیاتی ادارے بھی آئے اس میں عوامی نمائندگی کے دعویدار بیٹھے اور عوام کے مسائل حل کرنے کے دعوے کئے لیکن عوام کے مسائل تو حل نہ ہوئے البتہ ان کے اپنے کئی ”مسائل” حل ضرور ہوگئے۔
Sewage Problem
بلدیاتی اداروں اور اس میں بیٹھے عوامی نمائندوں کی غفلت اور لا پرواہی کی وجہ سے ہی اس شہر کے مسائل بڑھتے رہے اور ان مسائل میں شہر کے نکاسی آب کے مسلّے نے شدت اختیار کرلی اب حالت یہ ہے کہ اس وقت شہر میں نکاسی آب کے تقریباً تمام بڑے نالے بند ہو چکے ہیں اور بارش کے دنوں میں پانی کی نکاسی نہ ہونے سے پورا شہر جل تھل بنا رہتا ہے کمیشن کیلئے بعض علاقوں میں نئے نالے تو تعمیر ہو رہے ہیں جبکہ پرانے نالوں کی طرف توجہ ہی نہیں دی جا رہی ہے اگر یہ کہا جائے کہ حکام کو اس شہر کے نکاسی آب کے سسٹم کا ہی علم نہیں ہے تو بے جا نہ ہوگا اکثر پرانے نالے تجاوزات کی زد میں آچکے ہیں کئی پلازے اور کئی نالوں پر گھر بن گئے کئی گھروں کے درمیان نالوں کو گھیر لیا گیا اور ان نالوں کی صفائی کیلئے کوئی گزر گاہ ہی نہیں چھوڑی گئی بعض مقامات پر دکانوں کی فٹ پاتھوں کے نیچے اسے بند کر دیا گیا جس کی وجہ سے پورے شہر کے نکاسی آب کا سسٹم ہی درہم برہم ہو چکا ہے جس سے اس شہر کے باسی بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
حکمرانوں کو فکر ہے اور نہ ہی منتخب عوامی نمائندے اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں بیوروکریسی ”خپلہ خاورہ خپل اختیار ہے ”کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں کیونکہ ان سے تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے اس لئے پشاور کے باسی مصیبت میں مبتلا ہیں اور لگتا یہی ہے کہ وہ اس مصیبت اور پریشانی کو برداشت کرتے رہیں گے تاوقتیکہ اس شہر کا کوئی نیک اور ایماندار بیوروکریٹس کو اس کا اختیار نہ مل جائے یا اس شہر کا کوئی حقیقی نمائندہ منتخب ہو کر سامنے نہ آجائے ویسے تو سب ہی عوامی نمائندے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ”عوام ”کے غم میں گھلتے جارہے ہیں۔
لیکن ان کا یہ غم صرف انتخابات کے دنوں تک ہی محدود رہتا ہے یا پھر جب وہ کرسی سے اترتے ہیں تو ان کا کرسی کا نشہ اتر جاتا ہے پھر انہیں ”بے چارے ” عوام یاد آجاتے ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانیاں کراتے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ دوبارہ منتخب ہوتے ہیں نہ تو پھر انہیں وہ مسائل یاد رہتے ہیں نہ ہی وہ ان سے ملنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اس لیے ان مسائل کے حل کے لیے صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔