اللہ پاک نے انسان کو دنیا میں آذاد پیدا کیا. اس آذادی میں اس کی سوچ اس کا اسی طرح بنیادی حق قرار دیا جس طرح اس کا سانس لینا, کھانا کھانا ,پانی پینا.. اسی سوچ کے حق میں اس کا یہ فیصلہ کرنا کہ اسے کیا طرز زندگی اپنانا ہے, کونسا مذہب اختیار کرنا ہے, کن سے دوستی کرنی ہے, کن سے کاروباری معاملات رکھنا ہیں اور کئی ایسے ہی دوسرے معاملات …
ان سبھی حقوق میں سر فہرست ہے اس کا یہ حق کہ وہ خود سے یہ فیصلہ کرے کہ وہ کس شخص کیساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے یا چاہتی ہے. یعنی وہ کس کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھنا چاہتا ہے. یہ اس قدر اہم حق ہے کہ اللہ پاک نے اپنی آخری کتاب اور آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی زبانی اس بات کا حکم دیا اور اس پسند اور رضامندی کے بغیر اس رشتے کو ہی جائز قرار نہیں دیا.
لیکن ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو صورتحال خوفناک بھی ہے اور عجیب و غریب بھی. چند فیصد لوگوں کے سوا باقی سبھی کے ہاں شادیاں عملی طور پر جبری ہی ہوتی ہیں. لڑکی کی خصوصاً اور لڑکے کی عموماً وہیں پر شادی کرنے میں روڑے اٹکائے جاتے ہی جہاں اس رشتے میں ان کی اپنی رضامندی شامل ہوتی ہے.
لڑکی کے ابّا اور بھائیوں کی مونچھ کا بال داؤ پر لگ جاتا ہے کہ لڑکی ہو کر اس نے اپنی مرضی سے کیسے اپنا بَر چن لیا. اللہ نے اجازت دی ہو تو دی ہو , انہیں اس کیا فرق پڑتا ہے فرق پڑتا ہے تو لڑکی کے ابَا اور بھائیوں کی اجازت سے . کہ انہیں یا تو اس شادی کے بدلے من چاہے مفادات حاصل ہوں یا پھر اور کچھ نہیں تو ان کی انا کی تسکین تو ضرور ہونی چاہئے ورنہ پھر یہ شادیی کبھی نہیں ہو سکتی. اور لڑکے نے اپنے لئیے کوئی لڑکی پسند کر لی تو لڑکے کی امّاں اور بہن کے پیٹ میں بل پڑنا لازمی ہیں . کیونکہ وہ گھر کے لیئے غلامانہ اور ملازمانہ مزاج بہو لانا چاہتی ہیں جبکہ لڑکا تو لے آیا ہنر مند یا ان کے مقابلے اور ٹکر کی سیانی بہو تو اس شادی سے انہیں کیا آرام ملا .
ایشئین ممالک میں ہونے والے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل یعنی آنر کلنگ کا سرا بھی کہیں نہ کہیں انہیں واقعات کے ساتھ جا کر جڑتا ہے. آنر کلنگ تعداد اس قدر خوفناک ہے کہ اس پر شرم سے ہی ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے. پاکستان میں اس کی شرح کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیئے کہ ایک عالمی اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والے عزت کے نام پر اگر پانچ قتل ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک قتل پاکستان میں ہوتا ہے .
افسوس صد افسوس ہمارے ہاں سالہا سال تک ویسے بھی دورے کیسز میں بھی نہ تو قاتلوں کو سزائے موت ہوتی ہے اور نہ ہی زانیوں کو سولی پر چڑھایا جاتا ہے… لیکن ماراجاتا ہے تو محبت سے عزت سے اپنا گھر بسانے والے معصوم لوگوں کو چن چن کر اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر بیدردی سے مار دیا جاتا ہے… آپ جانتے ہیں ہمارے ہاں دہشت گرد اورچور ڈاکو کیوں زیادہ ہو گئے ہیں؟
آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہماری اولادوں کی آنکھ سے حیا اور زبان سے لحاظ کیوں رخصت ہو گیا ہے؟ تو غور کیجیئے اپنے ارد گرد ایسے لوگوں ان چوروں ڈاکوؤں قاتلوں اور زانیوں کے والدین کے حالات زندگی پر اور ان کی شادیوں کے معاملات پر.. ان میں ننانوے فیصد وہ لوگ ہیں جن کے والدین کو جبراً ایک دوسرے کا شوہر یا بیوی بننے پر مجبور کیا گیا. جبکہ وہ ایک دوسرے کی ذات سے کیا وجود سے بی نفرت کرتے تھے . گزارنے کو شاید انہوں نے ساری زندگی بھی ایک ہی گھر میں گزار دی ہو گی. لیکن اس میں بے ان کی رضا سے زیادہ ان کی مجبوری یا خوف ہی حائل رہا یا اولاد پیدا ہونے پر اس کی محبت نے انہیں اپنا دل مارنے ہر مجبور کر دیا. اورجب اولاد اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی تو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی راہ میں وہی اولاد ہی چٹان بن کر کھڑی ہو گئی.
گویا ایک جبری فیصلے سے آپ کے ہاں پیدا ہونے والی پوری نسل کو مشکوک بھی بنا دیا اور مجرم اورنفسیاتی مریض بھی . حرام کے رشتے سے حلال کی اولاد کی توقع بالکل ایسا ہی ہے جیسا سورج سے ٹھنڈک اور سائے کی تمنا .. جہاں ایک فریق نے شادی سے انکار کیا تو دوسرے فریق کو اس سے اپنی سوچ کا دائرہ بدل لینے کے بجائے اسے اپنی ضد اور انا بنا کر اسے سبق سکھانے کی سوجھی اور اپنے اس مجرمانہ عمل کو نام دیدیا عزت کی خاطر قتل کا . کمال ہے نا اتنے بڑے بے غیرتی کے کام کو( جس میں کس کا حق فیصلہ اللہ اور رسول کیساتھ قانون کا بھی دیا ہوا اپنی زندگی اپنی مرضی اور پسند کے انسان کے ساتھ گزارنا ) کو بدمعاشی اورغنڈہ گردی کے ذریعے سلب کر لیا جائے. ایک انسان کی زندگی کو اس کی خواہشات اور احساسات کا مقبرہ بنا دیا جائے. یا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے یا اسے زندہ جلا دیا جائے… اور نام دیدیا جائے عزت کے نام پر قتل. …. اور قتل بھی نوے فیصد کیسز میں صرف خواتین کے ہی قتل…
اس کا مطلب ہے غیرت صرف مرد میں ہوتی ہیں اسے جننے والی عورت کا غیرت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے. اس لحاظ سے مرد میں غیرت کہاں سے آئی؟ انسان تو جو کچھ دنیا میں لیکر آتا اپنی ماں کے خون سے ہی لیکر آتا ہے . تو ڈرئیے اس دن سے جب عورت نے مرد کو اپنی خون سے دی ہوئی غیرت خود بھی کھانی شروع کر دی تو گھر گھر غیرت کے نام پر مردوں کی لاشیں بچھ جائینگی . اس دن سےخدا کی پناہ مانگیں . اور اپنی اولادوں اور بہن بھائیوں کی شادیوں میں ان کی رائے اور مرضی کو اہمیت دیکر انہیں حرام کی زندگیاں گزارنے سے بچائیں. ورنہ یہ بوجھ آپ کی گردن سے قیامت تک نہیں اتر سکتا. دنیا میں تو برباد ہونگے ہی آخرت بئ نہ بچا پائیں گے.