آہ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں

Zardari and Imran Khan, Nawaz Sharif

Zardari and Imran Khan, Nawaz Sharif

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
دو دوست راستے میں یہ بحث کرتے جا رہے تھے کہ مرنے کے بعد گناہوں کی سزا انسان کے جسم کو ملے گی یا روح کو ایک کا موقف تھا کہ چونکہ گناہ انسان کے جسم نے کیے اس لئے سزا بھی جسم کو ملے گی ۔ مگر دوسرے کا کہنا تھا کہ روح نے جسم کو آمادہ کیا اس لئے سزا بھی دونوں کو ملے گی۔ اسی بحث میں ایک باغ آگیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ باغ سے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی ہیں۔ باغ کے اندر جب گئے تو دیکھا کہ باغ کا مالک ایک لنگڑے کو اور دوسرے اندھے کو مار رہا ہے۔ انہوں نے جا کے چھڑایا اور پوچھا کیوں مار رہے ہو انکو ۔ مالک نے کہا ان دونوں نے میرے باغ کے پھل توڑ کر کھائے ہیں۔

انہوں نے پوچھا۔ لنگڑا درخت پر چڑھ نہیں سکتااندھا دیکھ نہیں سکتا۔ پھر کیسے۔ مالک نے جواب دیا۔ بھائیو انہوں نے عجیب واردات کی ہے۔ میں جب باغ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ لنگڑے نے اندھے کو اپنے کندھے پر اٹھا رکھا ہے اور اندھا پھل توڑ توڑ کر نیچے پھینک رہا ہے۔ اس لئے دونوں قصور وار ہین اور مار پیٹ کے حقدار ہیں۔ دونوں کو بات سمجھ آگئی کہ جسم اور روح دونوں گناہوں کے ذمہ دار ہیں۔ اور سزا جزا کے حقدار بھی۔ اور وہ جیت گیا۔ قارئین ہمارے پاکستان کی موجودہ ابتری بدحالی بد نظمی معاشی تباہی کے ذمہ دار گزشتہ دو عشروں سے کوئی ایک نہیں دو نہیں بلکہ تینوں مقتدر شخصیات ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک نواز شریف ہی نہیں بلکہ زرداری اور عمران خان بھی برابر کے شریک ہیں۔ اور سزا جزا کے حقدار بھی ۔ روشن ضمیر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہماری موجودہ جمہوریت میں گزشتہ پانچ سالہ زرداری صاحب کے اقتدار میں ہمارے اس پاکستان مین معاشی بدحالی بد نظمی اور کرپشن کمیشن خوری کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ اسی کرپشن خوری کمیشن خوری جیالا نوازی اور زید و بکر کو خوش کرنے ساتھ ملانے اور بڑائو ملائو ساتھ کی پالیسی نے ملک کی معیشت کا پہیہ جام ہو کر رہ گیا تھا۔ بیرونی قرضہ جات میں روز مرہ اضافہ اور ان کی کمیشن خوری نے سرمایا داروں کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ بیرونی سرمایہ دار رک گئے اندرونی سرمایہ دار بد ظن ہو گئے۔

اس طرح منافع دینے ملک چلانے والی صنعتیں بھی ہوا دینے لگیں۔ اوپر سے تعمیر و ترقی کا پہیہ بھی جام نہ کوئی رن وے بنا ہائی وے بنا نہ ڈیم بنا سٹیل مل اور پی آئی اے جیسے بڑے منافع بخش ادارے ملک کو خون حیات دینے والے بمشکل اپنا سانس لینے لگے۔ ان کی حکومت نے جیالہ پروری اورلوٹنے کھسوٹنے اپنے دست راسوں کے ذریعے ملک کو ٹھیکے پر لگا دیا تھا اور اپنا پانچ سالہ اقتدار مکلم کیا اور یا جا وہ جا ۔ پھر 2013کے الیکشن نے اقتدار کا سہرا نواز لیگ کے سر سجایا ۔ نواز لیگ کو خزانہ خالی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ورثے میں ملی ساتھ ملکی اداروں میں نا اہل من پسند اور سفارشی اور کرپٹ لوگ ورثے میں ملے۔ انہوں نے پہلے تین سالوں میں تمام اداروں کو پائوں پر کھڑا کرنے بجلی کی لوڈشیڈنگ کو کنٹرول کرنے اور پاکستانی روپے کو اس کی قدر کو مستحکم کیا ڈالر کی بڑھتی قدر کو روکا اور ساتھ ہی موٹروے ہائی وے اور میڑو جیسے منصوبوں پے کام شروع کیا ۔ اور پانی اور بجلی کے مستقبل میں اہم بحران کو حل کرنے کے لئے تین چار ڈیموں پر کام شروع کیا اور گوادر پورٹ جو کہ سنگاپور والوں کے ٹھیکے میں دے دی گئی تھی کہ خود کمائو اور کھائو لے کر چائنہ کے سپرد کی اور ملکی ترقی کے عظیم منصوبے سی پیک کا معاہدہ اور عملدرآمد شروع کیا۔ مگر سر منڈاتے ہی اولے پڑے تحریک انصاف کے عمران خان نے اپنی احتجاجی سیاست شروع کر کے سڑکوں چوراہوں پر ڈیرہ ڈال کر پہلے لاہور کے چار حلقوں اور پھر بعد میں 2013کے الیکشن کو متنازعہ بنا کر مہینوں اسلام آباد کے ڈی چوک اور ملک کے بڑے بڑے شہروں کے تخیر پر اکوائیر جیسے چوکوں پر اپنی سیاست کا لوہا منوایا اپنی پارٹی کو ملک کی تیسری قوت منوایا۔

میں نہ مانوں اور کرپشن کو اپنا ہتھیار بنایا اسکے نتیجے میں متنازعہ چار حلقے تو کھلے ملک کے دیگر ضمنی الیکشن میں بھر پور کشتیاں ہوئیں۔ بڑے بڑے جذباتی مقرر بنے آئے پیدا ہوئے ۔ حکمران ن لیگ اور اس کے سر پرست مقابلے میں آئے ملک بھر میں وہ ڈیفنس صورت میں آکھڑے ہوگئے۔ مگر پاکستان اور اہل پاکستان کی بدقسمتی کہ تمام میگا پروجیکٹ کئی بند ہو گئے اور کئی بمشکل سانس لینے لگے۔ سرمایہ دار ی رک گئی حکمران جماعت اور انکے ہمنوائوں نے سرمایہ لگانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ملک کی سیاسی افراتفری میں چور چور کے شور نے بیرونی سرمایہ داروں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ نتیجہ آج ملکی منافع بخش اداروں کی حالت اسی زرداری حکومت جیسی ہو کر رہ گئی ۔ ڈالر بڑھ گیا۔ مہنگائی آسمانوں پر جا پہنچی ۔ تیل کی قیمتیں ہر مہینے بڑھنے لگیں۔ نواز شریف نا اہل ہو کر گھر بیٹھ گئے۔ انکے تجربہ کار ساتھی کچھ ملک چھوڑ گئے کچھ کرپشن کی زد میں ملزمان کی صف میں اور کچھ تو ہین عدالت کے نرغے میں آگئے تحریک انصاف اور عمران خان اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے مگر ملک ان دو بھینسوں کی لڑائی میں معاشی سیاسی اور دہشت زدہ ماحول کا شکار ہو کر رہ گیا۔

قارئین عجب تو یہ ہے کرپشن کرپشن کی اس لڑائی میں ملک کو ایک پیسہ لوٹا ہوا نہ ملا۔ نہ زرداریوں انکے جیالوں کا لوٹا ہوا اور نہ نوازلیگیوں کی کرپشن کا پیسہ ہی واپس آیا مگر انصافیے آج اپنی جیت میں خوشیوں کے ڈونگرے بجا رہے ہیں اور تو اور زرداریوں نے بھی انصافیوں کے ہاں پناہ مل گئی۔ اللہ اللہ خیرص اللہ ۔ کوئی بتائے کہ ہم انصافیوں کی جیت میں خوشیاں منائیں یا شریفوں کی نا اہلی اور ملک کی بد حالی پر ماتم کریں۔ سوچنے کا مقام ہے قارئین اگر چند کروڑ روپے ہی زرداریوں اور شریفوں سے وصول کر کے ملکی خزانے میں جمع ہو جاتے غیر ملکی قرضوں کی قسط ادا ہو جاتی تو ہم بھی عمران خان اور انصافیوں کی خوشی میں دھمالیں ڈالتے مگر نہیں اب ملک کی ابتری اور شریفوں کی نا اہلی پر آئیں ہم سب ماتم کریں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو وہ ہوتا۔ فریاد لیکر جائیں بھی کہاں جائیں۔ ملکی اعلیٰ عدالتیں سیاسی جھگڑے نمٹانے اور اپنی توہین کرنے والوں کو سبق سیکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ جب قدرت کی لاٹھی حرکت میں آئی تو ملک کے اہل پاکستان کے یہ تینوں مجرم ہیں۔ شریف بھی زرداری بھی اور عمران خان اور اسکے کھلاڑی بھی قدرت کا کوڑا جب برسا تو لنگڑے اور اندھے کے ساتھ چوکیدار کو تینوں کو برابر کی سزا ملے گی انشاء اللہ ۔ آئیں ہم اپنا کام کریں۔

آہ عندلیب مل کر کریں آہ وزاریاں
تو ہائے ہائے پکار میں پیٹوں جگر کو

Haji Zahid Hussain

Haji Zahid Hussain

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ پاکستان
hajizahid.palandri@gmail.com