تحریر : ایم سرور صدیقی صدیوں پہلے جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا وہ بستیوں کو تاراج کرتا ہزاروں انسانوں کو تہہ تیغ کرتا مسلمانوں کے عظیم مذہبی، ثقافتی اور علمی و ادبی مرکز میں پہنچا یہاں بھی اس نے ظلم و بربریت کی نئی مثالیں قائم کر ڈالیں انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا کر فتح کا جشن منانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ تاریخ بتاتی ہے جب ہلاکو خان نے بغداد کی لائبریروں کی کتابوں کو دریا میں پھینکوایا تو اتنا عظیم الشان ذخیرہ تھا کہ پانی کئی گھنٹے رک گیا اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت کا بغداد کیسا شہرِ حکمت ودانش ہوگا؟ بہرحال سقوط ِ بغدادکے بعد جب وزیروں، مشیروں، معززین اورعلماء کرام کو اس کے سامنے پیش کیا گیا تو چہار اطراف تباہی و بربادی تھی سب سہمے سہمے ڈرے ڈرے اس کے دربار میں لائے گئے سب پر اس تباہی اورقتل ِ عام کے گہرے اثرات تھے جب ہلاکو خان دربارمیں آیا تو اس کے جاہ ہ جلال سے گویا اتنا سناٹا چھا گیا جیسے حاضرین کی سانسیں رک گئی ہوں۔
اس نے ادھر ادھر دیکھاحقارت سے قیدیوں پر نظر دوڑائی پھر وہ ہوا جس کی توقع بھی نہیںکی جا سکتی تھی نہ جانے کہاں سے ایک ”قیدی ” آگے بڑھا اس کے چہرے پر بڑی متانت تھی اس نے کمال جرأت سے ہلاکو خان کی آستین پکڑلی ہذیانی کیفیت میں چیخ کرکہا ”تمہارا بیڑا غرق ہو تم پر ضرور اللہ کا عذاب آئے گا ہلاکو خان نے نخوت سے آستین جھٹک کر زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ” نادان تم جس عذاب کا ذکر کررہے ہو وہ میں ہی ہوں۔پھر اس کے حکم پر سب کو موت کے گھات اتاردیا گیا قرآن کہتاہے اللہ نے نافرمان قوموںپر طرح طرح کے عذاب نازل کئے کسی کی شکل تبدیل ہوگئی کوئی پانی میں غرقاب ہوگیا،کسی قوم پر چوہوں کا عذاب آیااوروہ طاعون کے مرض میں مبتلاہوکر مرتے چلے گئے،کہیں مینڈکوںکی افراط ہوگئی لوگ عاجز آگئے اور کہیں افرمانوں کیلئے پانی خون میں بدل جاتا وہ پیاسے مرجاتے مسلمانوںپر ایسا کوئی عذاب نہیں آنے والا اس کی وجہ فقط یہ ٹھہری کہ ہم اللہ کے آخری اور اس کے لاڈلے نبی ٔ اکرم ۖ کے امتی ہیں ورنہ اعمال تو ہمارے شاید نافرمان قوموں جیسے ہی ہیں ہمارے شکلیں صورتیں تو نہیں بدلیں لیکن ہم جیسے نافرمانوں کیلئے اللہ کے عذاب کی شکل بدل گئی۔
اربوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہورہے ہیں بیشتر اسلامی ممالک عدم تحفظ کا شکارہیں درجنوں مسلمان ملکوںپاکستان، افغانستان،عراق، ایران، سعودی عرب،شام،یمن،مقبوضہ کشمیرمیں روزانہ سینکڑوں مسلمان قتل ہورہے ہیں، برما،بھارت،چیچنیا اور نہ جانے کتنے ممالک ہیں جن میں مسلمانوںکا جینا عذاب بن چکاہے ان کی نسل کشی ہورہی ہے دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھانا حتیٰ کہ بیشتر مسلم حکمرانوںنے بھی چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے ہر جگہ مرتے مسلمان ہیں پھر بھی مسلمانوںپر دہشت گرد ہونے کا لیبل چسپاں کردیا گیاہے۔ غورکریںتو محسوس ہوگایہ بھی عذاب کی ایک شکل ہی ہے پوری دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہو اسے مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا جاتاہے پھربھی ہم نہیں سمجھتے شاید سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ عالم ِ اسلام کو اللہ تبارک تعالیٰ نے ہزاروں نعمتوںسے سرفرازفرمایاہے پھر بھی یہود ونصاریٰ اور ہندو ئوںکوہم پر برتری حاصل ہے حلیجی ممالک میں سب سے زیادہ بزنس مین اور ملازمین کی اکثریت ہندئووںکی ہے اقلیت کی اکثریت پر حکومت بھی تو اللہ کا عذاب ہی ہے۔
اسلامی ممالک میں زیادوہ تر بادشاہت ہے لیکن پاکستان جیسے جو ملک جمہوری کہلاتے ہیں یہاں بھی غالب آبادی کو انسانی حقوق میسرنہیں مراعات،ریاستی وسائل اور ہرقسم کی آسائشیں صرف اشرافیہ کے تصرف میں ہیں عوام کو تو زندگی کی بنیادی سہولیات سے آشنائی ہی نہیں یہ کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا چاندپر پہنچ گئی ہے مریخ تک رسائی کی باتیں ہورہی ہیں لیکن پاکستانی عوام کو پینے کا صاف پانی ہی پینے کو ملتا نمائشی کام جوش و خروش سے کئے جاتے ہیں جن کا رزلٹ کچھ ہی عرصہ بعد زیرو نکلتاہے عوام اس قدر احساس ِ محرومی کے شکارہیں کہ چند روپوں کے فائدے کیلئے اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں اس کی تازہ مثال احمدپورشرقیہ میں آئل ٹینکر سے پٹرول لوٹتے ہوئے200سے زائد افرادکی ہلاکت ہے۔
حکمرانوں نے اپنے لئے دولت کے پہاڑ جمع کرلئے پھر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا اور قربان جائیے وہ پھر بھی معصومیت سے کہتے پھرتے ہیں ہم پر الزام کیا ہے؟ دلچسپ بات نہ سہی شرم کا مقام تو ہے کہ پاکستان کو لوٹنے والوں کا دفاع کچھ لوگ کس دھڑلے سے کررہے ہیں کسی کو سچ بات کرنے کی توفیق نہ ہونا بھی اللہ کا عذاب ہی ہے یہ الگ بات حال مست مال مست لوگوںکی دنیا ہی نرالی ہوتی ہے پاکستان میں مذہبی جماعتیں ہوں یا جمہور ی پارٹیاں سب کی سب کرپشن کے حمام میں ننگی ہیں ان کی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں آئے روز منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں آج تک جتنے بھی حکمران ہو گذرے ہیں ، ان سے وابستہ ارکان ِ اسمبلی میں سے بیشتر کے قصے کہانیاں گھر گھر میں سنائی اور دکھائی دیتی ہیں پھر بھی ان کے حق میں نعرے لگانے والوںکی کمی نہیں یقینا یہ بھی اللہ کا عذاب ہی ہے۔ جو اپنے مفاد کیلئے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے پر قادر ہیں۔
غریبوں کے گھروں میں دووقت کی روٹی کیلئے سسکیاں ، ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر پڑے چار چار مریضوں کی ہچکیاں،ارکان ِ اسمبلی کی لوٹ مارکی کہانیاں ،پروکوٹول سے غریبوں کی ہلاکتیں،شہرشہر غربت کے باعث خودکشیاں،اقتدارکیلئے لڑائیاں اورعام آدمی کیلئے نری کہانیاں پھر بھی خدمت کے دعوے، شرم نہ حیا ۔ ہم مسلمانوں نے تو زمانہ بیتا غوروفکر کرنا ہی چھوڑ ڈالا ہر کسی کو بس اپنا وقتی فائدہ ہی اچھا لگتاہے اور اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز بلکہ دریغ نہیں کرتا پھر ہمارے ساتھ جو کچھ ہورہاہے اس کا گلہ کیسا ؟شکوہ کیونکر؟کوئی مانے یا نہ مانے مجھے تو صدق ِ دل سے یقین ہے کہ ایسے حکمران بھی اللہ کا عذاب ہیں جو غریبوں کے حصے کا زرق چھین کر اپنی دولت میں اضافہ کرتے چلے جائیں، مہنگائی، بیروزگاری، دہشت گردی، ملاوٹ، ڈاکٹروں کا مریضوں قصائی جیسا سلوک اور نہ جانے کتنے مسائل یقین جانیے پاکستانی عوام تو عذاب درعذاب کا شکار ہیں ہر محکمہ،ہر ادارہ،ہر بااثرشخص عوام کااستحصال کررہاہے ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں پھر جواب دیں اور عذاب کیسا ہوتاہے ؟ سمجھ اس لئے نہیں لگ رہی کہ شاید ہمارے دل و دماغ پر مہریں لگادی گئی ہیں۔