ن لیگ کی حکومت سے عوام کو بڑی توقعات تھیں اور ہیں۔ جنرل مشرف اور ق لیگ کے دور اقتدار کے بعد رہی سہی کسر پیپلز پارٹی حکومت نے پوری کر دی تھی۔ اس لئے عوام کا ن لیگ کی حکومت سے توقعات رکھنا حق بجانب تھا۔ تا ہم ن لیگ کی حکومت اتنے ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک جہاں عوام کو ریلیف نہیں دے سکی وہاں کرپشن کرنے والے با اثر سیاست دانوں اور بیور کریٹ جو دندناتے پھر رہے ہیں کو بھی لگام نہیں دے سکی۔ لیکن یہ کیا کوئی بھی حکومت کرپشن کو لگام اس وقت تک نہیں دے سکتی جت تک یہ اپنے وزیروں مشیروں اور اپنے اْن رشتہ داروں کو سزا نہیں دے گی جو کرپٹ ہیں۔ این ایل سی کیس ہو یا منی لارڈنگ کیس، اخلاقی جرائم ہوں یا انسانی جان سے کھیلا گیا ہو کسی بڑے کو سزا نہیں ملتی۔ اگر سزا دینے کا عمل اپنے عزیزوں سے شروع کیا جائے تو بلاشبہ دوسرے عناصر اس سے عبرت پکڑیں گے جس طرح ایک دن سلطان محمود غزنو ی حسبِ معمول دربا رمیں بیٹھا ہوا تھا۔
وزراء و امراء دست بستہ حاضر تھے۔ عام لو گ اپنی اپنی عرضیا ں پیش کر رہے تھے اور ایک شخص نے آکر عرض کی ”میری شکایت نہایت سنگین ہے اور کچھ اس قسم کی ہے کہ میں اسے بر سرِ دربار عرض نہیں کر سکتا ”سلطان یہ سن کر فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور سائل کو خلوت میں لیجا کر پو چھا کہ تمہیں کیا شکا یت ہے؟ سائل نے عر ض کیا ایک عرصے سے بندگانِ عالی (سلطان محمود غزنوی) کے بھانجے نے یہ طر یقہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ مسلح ہو کر میرے مکان پرآتا ہے اور مجھے مار پیٹ کر باہر نکال دیتا ہے اور خود جبراً میرے گھر میں شب بھر داد عیش دیتا ہے۔ غزنی کی کوئی عدالت ایسی نہیں، جس میں میں نے اس ظلم کی فریاد نہ کی ہو لیکن کسی کو انصاف کر نیکی جرات نہیں ہوئی۔
جب میں ہر طر ف سے مایوس ہو گیا تو آج مجبوراً جہاں پناہ کی بارگاہِ عالیہ میں انصاف کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ شہنشاہ عالی کی بے لاگ انصاف پروری، فریاد رسی اور رعایا سے بے پناہ شفقت پر بھروسہ کر کے میں نے اپنا حال عرض کر دیا ہے۔ خالق حقیقی نے آپکو اپنی مخلو ق کا محافظ و نگہبان بنایا ہے۔ قیا مت میں رعایا اور کمزوروں پر مظا لم کے نتیجے میں آپ خدائے قہار کے روبرو جوابدہ ہو نگے اگر آپ نے میرے حال پر رحم فرما کر انصاف کیا تو بہتر ہے ورنہ میں اس معاملے کو منتقم حقیقی کے سپرد کر کے اس کے روبرو عنایت فیصلہ تک انتظار کرونگا۔ سلطانِ محترم پر اس واقعہ کا اتنا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار آبدیدہ ہو گئے اور سائل سے کہا ”تم سب سے پہلے میرے پاس کیوں نہ آئے؟ تم نے ناحق ابتک یہ ظلم کیوں برداشت کیا؟ ”سائل نے عرض کیا” میں عرصے سے اس کوشش میں لگا ہوا تھا کہ کسی طرح بارگاہ سلطانی تک پہنچ جاؤں مگر دربانو ں اور چوبداروں کی قدغن نے کامیاب نہ ہونے دیا۔
Allah
خداتعالیٰ ہی جانتا ہے کہ آج بھی کس تدبیر سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ مجھ جیسے غریبوں اور مظلوموں کو یہ با ت کہاں نصیب ہے کہ جب چاہیں بے دھڑک دربارِ سلطانی میں حاضر ہو جائیں اور سلطا ن کو اپنے دردِ دل کی کہانی سنا سکیں۔ ”سلطان نے سائل کو اطمینان اور دلاسہ دے کر تاکید کی کہ ”اس ملاقات اور گفتگو کا کسی سے ذکر نہ کر نا اور جس وقت بھی وہ شخص تمہارے گھر آئے اسی وقت مجھے اس کی اطلاع کر دینا۔ میں اس کو ایسی عبرت ناک سزا دونگا کہ آئندہ دوسروں کو ایسے مظالم کرنیکی کی جر ات نہ ہو سکے گی۔ ”سائل نے عرض کیا” مجھ ایسے بے کسو بے یارو مدد گار کے لیے یہ کیونکر ممکن ہو سکے گا کہ جب چاہوں بلا کسی مزاحمت کے خدمتِ سلطانی میں حاضر ہو جاؤں اور مطلع کر سکوں۔
” سلطان نے یہ سن کر دربانو ں کو طلب کیا اور سائل کو ان سے روشناس کرا کے حکم دیا۔” یہ شخص جس وقت بھی آئے ہمارے پاس پہنچا دیا جائے اور کسی طر ح کی مزاحمت نہ کی جائے۔ ” دو راتیں گزر گئیں مگر سائل نہ آیا۔ سلطان کو تشویش ہوئی کہ نہ معلوم غریب مظلوم کو کیا حادثہ پیش آیا۔ وہ اسی فکر میں پریشان تھا کہ تیسری رات کو سائل دوڑتا ہوا آستانہ شاہی پر پہنچا۔ اطلاع ملتے ہی سلطان فی الفور باہر نکلا اور سائل کے ہمراہ اسکے گھر پہنچ کر اپنی آنکھو ں سے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو سائل نے اسے بتلایا تھا۔
پلنگ کے سرہانے شمع جل رہی تھی۔ سلطان نے شمع گل کرا دی اور خود خنجر نکال کر اس کا سر اڑا دیا۔ اس کے بعد شمع روشن کرائی مقتول کا چہرہ دیکھ کر بے ساختہ سلطان کی زبان سے الحمد اللہ نکلا اور پھر سائل سے کہا کہ تم اطمینان سے اپنے گھر میں آرام کرو۔ اب انشاءاللہ عزوجل تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔ میری وجہ سے اب تک تم پر جو مظالم ہو ئے خدا کے لیے انہیں معا ف کر دو۔ ”یہ کہہ کر سلطان عالی وقار رخصت ہونا ہی چاہتا تھا کہ سائل نے دامن پکڑ کر عرض کیا بند گانِ عالی نے جس طر ح ایک مظلوم کیساتھ انصاف فر مایا حتی کہ اپنی قرابت داری و خون کا بھی مطلق خیال نہ کیا، اللہ تعالیٰ آپ کو اسکی جزائے خیر عطا فرمائے اور اجر عظیم عنا ئت فرمائے۔
اگر اجازت مرحمت فرمائی جائے تو ایک بات معلوم کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آپ نے پہلے شمع گل کرائی اور پھر روشن کرا کر مقتول کا سر دیکھ کر الحمد اللہ فرمایا اور اس کے فوراً بعد پانی طلب فرمایا اسکا کیا سبب تھا؟ سلطان نے ہر چند ٹالنا چاہا مگر سائل کے اصرار پر اسے بتلانا پڑا۔ ”شمع گل کرنیکا مقصد یہ تھا کہ مبادا روشنی میں اس کا چہرہ دیکھ کر بہن کے خون کی محبت مجھے سزا دینے سے باز رکھے اور الحمد اللہ کہنے کا سبب یہ تھا کہ مقتول اپنے آپ کو میرا بھانجا بتا کر تمہیں شاہی تعلق سے مرعو ب کر کے اپنی خواشاتِ نفسانی کو پورا کرنے کے لیے را ستہ صاف رکھنا چاہتا تھا۔
Justice
خداوند کریم کا ہزار ہا شکرہے کہ محمود کے متعلقین کا اس شرمناک بہودگی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور پانی مانگنے کی وجہ یہ تھی کہ جب سے تم نے اپنا واقعہ سنایا تھا میں نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک تمہا را انصاف نہ کر لونگا آب و دانہ مجھ پر حرا م ہے۔ اب چو نکہ میں اپنے فر ض سے سبکدوش ہو چکا تھا اور تشنگی کا شدید غلبہ تھا اس لیے میں پانی مانگنے پر مجبور ہو گیا۔ قارئین ہماری تاریخ تو بڑی شاندار تھی۔ نہ معلوم اب کیا ہوا ہے۔ سزا صرف غریبوں کا مقدر بن گئی اور جزا امیروں….